اداروں اور عوام میں قربت کا مثالی تعلق بنانے کیلئے آئین قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہو گا مرکزی رہنما جماعت اسلامی ڈاکٹر صفدر ہاشمی کا بین الاقوامی ویب سائٹ “ایس جی نیوز” کیلئے خصوصی انٹرویو۔

:محمد ندیم قیصر (ملتان)

:تفصیلات

جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر صفدر حسین ہاشمی نے کہا۔

جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر صفدر حسین ہاشمی نے کہا ہے کہ اداروں اور عوام میں قربت کا مثالی تعلق بنانے کیلئے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہو گا۔ آئین قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہو گا عدلیہ۔ایسٹیبلشمنٹ کو اپنی اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اپنا آئینی کردار ادا کرنا ہو گا سائن ویز گروپ آف کمپنیز کی بین الاقوامی ویب سائٹ ایس جی نیوز کیلئے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر صفدر ہاشمی کا کہنا تھا کہ یہ رسم چل نکلی ہے کہ ایک پارٹی اقتدار کو انجوائے کر رہی ہے۔تو دوسری جماعت کی لیڈر شپ پابند سلاسل ہے اس منفی روش کی ذمہ دار صرف ادارے ہی نہیں بلکہ خود سیاسی جماعتیں ہیں۔جو ایک دوسرے کے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی ہیں اور باہمی اختلافات غلط فہمیاں کو ڈائیلاگ کے ذریعے دور کرنے کی حکمت عملی نہیں اپناتی ہیں۔

اگر حالات بگڑ جائیں تو پھر آل پارٹیز کانفرنس ضرور بلائی جاتی ہے مگر اے پی سی کی سفارشات پر کماحقہ عملدرآمد کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صاف شفاف انتخابات کے انعقاد پر بھی سوالیہ نشان ہے ۔ انتخابی نتائج کے بارے میں کبھی انجینئرڈ۔ کبھی نتائج مرتب کرنیوالا سسٹم بیٹھ جانے اور مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اب الیکشن 2024ء کے نتائج پر فارم 45 اور فارم 47 کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ مقننہ کی بالا دستی کو اداروں بلکہ خود سیاسی جماعتوں نے تسلیم نہیں کیا جس کے نتیجے میں جب بھی سیاسی سماجی سطح پر ماحول گرم ہوتا ہے امن عامہ کی صورتحال بگڑتی ہے۔

سیاسی رواداری۔ ہم آہنگی کیسے ممکن۔ اداروں کو کیسے ان کی حدود میں رہنے پر قائل کیا جا سکتا ہے۔

اس سوال پر ڈاکٹر صفدر ہاشمی کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو عوامی مینڈیٹ کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانا ہو گا ۔ “اداروں ” کی بجائے اپنے سیاسی منشور کے زور پر الیکشن لڑنا ہو گا پھر جو بھی جماعت جیت جائے اقتدار کی پر امن منتقلی کیلئے ہر سیاسی رہنما کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ جمہوری پلیٹ فارم پر سیاسی ہم آہنگی رواداری کو یقینی بنانے کیلئے ڈائیلاگ کا راستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ صاف شفاف انتخابات ہر جماعت چاہتی ہے لیکن اس کی نظر میں غیر جانبدرانہ انتخابات صرف وہی ہیں جس کے نتائج کے مطابق اسے اقتدار مل جائے ۔ اقتدار نہ مل سکے تو پھر دھاندلی دھاندلی کا شور شرابہ سنائی دینے لگتا ہے اداروں پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں الزام تراشی کی مہم میں تہذیب و شائستگی کا پیمانہ چھلکنے لگتا ہے اور اس ماحول کو گرمائے رکھنے کیلئے سیاسی ورکر کی ذہن سازی کی جاتی ہے ۔

سیاسی ورکر کی تربیت کیسے ممکن ؟ “ڈیجیٹل دہشت گرد” ہونے کا بدترین الزام بھی لگ گیا!!۔

اس سوال پر ڈاکٹر صفدر ہاشمی کا کہنا تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور کو تسلیم کرنے والا ایک عام آدمی صرف کسی مخصوص جماعت ہی کا ورکر نہیں ہوتا بلکہ سیاسی منشور کو تسلیم کرنے کا پس منظر صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ اس منشور میں اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے اور اپنی پسندیدہ جماعت کی لیڈر شپ کو اپنا نجات دہندہ مانتا ہے اور اپنی لیڈرشپ کی ایک کال پر تن من دھن وارنے پر آمادہ ہوتا ہے ۔۔ ایسے مخلص عام ورکر کو سیاسی شعور اور تربیت تربیت سازی لیڈرشپ کی ذمہ داری ہے “ڈیجیٹل دہشت گرد” کا سیاسی ورکر پر الزام دراصل جمہوری نظام پر الزام ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 67 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اور نسل نو کی تربیت سازی کا عمل ماں کی گود سے شروع ہوتا ہے۔

لیکن وہ معاشرہ سے بھی اثر لیتا ہے ۔ تعلینی اداروں کے ماحول میں نوجوانوں کی سیاسی تربیت سازی ضرورت ہے اس ضمن میں طلبہ تنظیموں کو بحال کرنا ہو گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ طلبہ تنظیموں کی سیاست سے ابھرنے والی قیادت میں سے نامور سیاستدان بھی میسر آئے اور ان کا تعلق کسی ایک جماعت سے نہیں بلکہ ہر جماعت سے تھا انہوں نے کہا کہ سیاسی شعور رکھنے اور جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والا ہر سیاسی ورکر صرف کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ ہر جماعت کیلئے قابل احترام ہے اس لیے سیاسی ورکر کی تربیت سازی میں تہذیب شائستگی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اختلاف رائے کو تسلیم کرنے اور اپنا موقف تسلیم کروانے کا ہنر سیکھایا جائے۔

اداروں کی نوجوانوں کے ساتھ” ہم آہنگی مہم ” کیسے ثمر آور ہو سکے گی!! کیا نسل نو اور اداروں کے درمیان واقعی “گیپ ” موجود ہے!؟

س سوال پر ڈاکٹر صفدر ہاشمی کا کہنا تھا کہ ہمارے نوجوان کے تحفظات کا مداوا نہیں کیا گیا نوجوان کی ناراضگی کسی مخصوص ادارے یا جماعت سے نہیں بلکہ سسٹم سے ہے ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں وطن عزیز کے سیاسی ۔ انتظامی نظام کی خودکار انداز میں اصلاح کر لی جائے تو پھر نوجوانوں کا روایتی گلہ شکوہ بھی نہیں رہے گا اداروں اور نوجوانوں میں “گیپ ” کا تاثر بھی دم توڑ دے گا یہی ایک مؤثر فارمولہ ہے نوجوانوں کے ملکی سسٹم پر بحالی کا! اس سلسلے میں ہر ادارے اور ہر سیاسی جماعت کو اپنا اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔

ٹرین سانحہ ملکی سیاست پر کس قدر اثر انداز!! وجوہات کا سدباب کیسے ممکن ؟

اس سوال پر ڈاکٹر صفدر ہاشمی نے کہا کہ کوئٹہ کے قریب ٹرین پر قبضہ کوئی نیا سانحہ نہیں بلکہ یہ اس بدامنی اور انتشار کا تسلسل ہے جس کی شدت بلوچستان۔ خیبر پختونخوا میں زیادہ ہے پنجاب اور سندھ میں آج کل کسی حد تک کم ہے لیکن ہے تو یہ ایک قومی مسئلہ ۔۔ تازہ ترین ٹرین سانحہ کے پس منظر اور اسباب کا جائزہ لیا جائے تو یہ وقتی نہیں بلکہ برسوں دہائیوں پرانے ہیں ان اسباب محرکات کا فوری سدباب کرنے کیلئے ڈائیلاگ ہی سب سے بڑا راستہ ہے سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں ۔ ون پیج پالیسی اپنائیں حقوق کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات بروئے کار لائے جائیں تو اسی میں ہر سیاسی جماعت ۔ ادارے کی بقا ہے یہ کسی ادارے یا جماعت کی ساکھ کا معاملہ نہیں بلکہ وطن عزیز میں امن و سلامتی ۔ معاشی استحکام اور خوشحالی کا معاملہ ہے۔

  • Related Posts

    بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نےایک ماہ میں 4 ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجوانے کا ریکارڈ قائم کر دیا۔ حکومت کا اظہار تشکر ۔ سرکاری پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار

    محمد ندیم قیصر…

    پاکستان بیلاروس سربراہان ملاقات میں باہمی مفاہمت کی مختلف یادداشت پر دستخط ۔ تجارت، اقتصادی تعاون کے عزم کا اظہار

    :محمد ندیم قیصر…

    Leave a Reply

    Your email address will not be published. Required fields are marked *