
محمد ندیم قیصر (ملتان)
:تفصیلات
ـ2025کے پہلے سورج نے سال نو کے آغاز کی نوید سنائی تو تقریباً سال بھر سے برسر اقتدار حکومت نے اڑان پاکستان کے نام سے قومی معاشی ترقی کے اہداف کا باضابطہ اعلان کردیا۔ اور اس چیلنجگ ٹاسک کو پاکستان کے مخصوص اقتصادی حالات کے پس منظر میں ایک گیم چینجر منصوبہ کا نام بھی دیا گیا ۔حکمران طبقہ نے اپنے اہداف کے پس منظر میں دعویٰ کیا کہ پنجسالہ “اڑان پاکستان” منصوبہ کی سال بہ سال کامیابی کی صورت میں پاکستان کو آئندہ تین برسوں کے بعد آئی ایم ایف کے قرضہ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
حکومت کی طرف سے ملکی معیشت میں استحکام اور مہنگائی کی رفتار میں کمی سے متعلق دعوے کیے گئےاور پاکستان اپنے بجٹ اہداف غیر ملکی مالیاتی اداروں کی شرائط کے مطابق نہیں بلکہ وطن عزیز کے زمینی حقائق کے مطابق طے کر سکے گا ۔
دوسری طرف “اڑان پاکستان” کے ناقدین نے اصلاح کے نام پر یہ تجزیہ پیش کیا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران اڑان پاکستان کیلئے گیم چینجر میں تبدیل کرنے کیلئے ہرگز سازگار نہیں ہے بلکہ چیلنجنگ ٹاسک کا واضح اشارہ دیا ہے۔
اڑان پاکستان کے پنجسالہ اور طویل المدتی اہداف کیا ہیں !!۔
وفاقی حکومت کی طرف سے 30 دسمبر 2024ء کو یعنی نیا سال شروع ہونے سے صرف دو روز قبل اڑان پاکستان کا اعلان کیا اور اس منصوبہ کو پنجسالہ کے ساتھ 2035ء تک طویل المدتی اہداف کا بھی خصوصی ذکر کیا جس کے مطابق معاشی بحالی کے کئی چیلنجز سے دوچار پاکستان کی وفاقی حکومت نے ’اُڑان پاکستان‘ کے نام سے ایک منصوبہ تیار کیا ہے جس میں اقتصادی شرح ترقی اور برآمدات کے ساتھ ساتھ سماجی شعبوں کے لیے بلند اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ حکومت کی جانب سے اڑان پاکستان منصوبہ کے اعلان کے ساتھ انقلابی ترقی کا ذکر ایسے موقع پر کیا ہے کہ جب حکومت آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے سلسلے میں پاکستان میں ٹیکس، نجکاری اور توانائی سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات کی کوشاں ہے ۔
اُڑان پاکستان کے تحت آئندہ پانچ اور طویل مدت میں سنہ 2035 تک کے معاشی اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ مثلاً ملکی شرح نمو میں اگلے پانچ سال میں چھ فیصد اضافے کا ہدف مقرر کیا ہے اور آئندہ 10 برس یعنی 2035ء تک مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا سائز ایک ٹریلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
اس وقت پاکستان کا جی ڈی پی تقریبا 374 ارب ڈالرہیں اور ماہرین اقتصادیات کے نزدیک اڑان پاکستان کے تحت آئندہ پانچ برس کے لیے جو بڑے اہداف رکھے گئے ہیں وہ ملک کے موجودہ معاشی اشاریوں کے مقابلے میں دانشمندانہ سے زیادہ حکمران طبقہ کے خواہشمندانہ ہیں۔
اڑان پاکستان کے اہداف کے حصول میں جن زمینی حقائق کو روکاوٹ سمجھا جارہا ہے ان میں سب سے بڑا مسئلہ پاکستان میں جاری سیاسی بحران کا ہے اور سیاسی حالات میں استحکام آتا بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ حکومت کیلئے دوسرا بڑا مسئلہ کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل ہے اور امن عامہ کی غیر یقینی صورتحال بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے حوصلہ شکن ہے۔
اُڑان پاکستان پروگرام کے خدو خال
اڑان پاکستان پروگرام کے بارے میں وفاقی وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی جانب سے رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔
اڑان پاکستان پہلا ہدف برآمدات کیلئے حوصلہ افزاء معیشت کا قیام یقینی بنانا ۔ ڈیجیٹل انقلاب کیلئے سازگار ماحول اور موسمیاتی چیلنجز سے بہ احسن نمٹنا ہے۔
توانائی کے شعبہ کی ترقی انفراسٹرکچر میں خاطر خواہ بہتری اور مساویانہ اصول کی بنیاد پر سماجی ترقی کے مواقع کی بلا روکاوٹ فراہمی کو یقینی بنانا بھی ‘اڑان پاکستان’ کے اہداف میں شامل کیا گیا۔
اڑان پاکستان ‘گیم چینجر منصوبہ ‘سر کاری دعویٰ کی حقیقت کیا ہے؟
اڑان پاکستان کے طے کردہ اہداف کے مطابق پاکستان کی برآمدات کے حجم میں اگلے پانچ سال کے دوران دوگنا اضافہ کرنا یعنی 60 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچانا ہے۔جب کہ اس وقت پاکستان برآمدات کا موجودہ حجم کم س بیش 30 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اِسی طرح جی ڈی پی کی شرح افزائش کو آئندہ پانچ برس میں چھ فیصد تک لے جانا ہے۔ جب کہ ابھی تک شرح افزائش ایک فیصد سے بھی کم بتائی گئی ہے۔
ای پاکستان کے شعبے میں آئندہ پانچ برس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فری لانسنگ انڈسٹری کو پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کے لیے سالانہ دو لاکھ آئی ٹی گریجویٹس تیار کیے جائیں گے۔ماحولیاتی تبدیلی کے شعبے میں آئندہ پانچ برس میں گرین ہاؤس گیسز میں 50 فیصد تک کمی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ قابل کاشت زمین میں 20 فیصد سے زائد اضافہ اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں دس ملین ایکٹر فٹ تک کا اضافہ کرنا ہے۔ توانائی کے شعبے میں قابل تجدید توانائی کا حصہ دس فیصد تک بڑھانا ہے۔
سماجی مساوات کے شعبے میں ’اڑان پاکستان‘ پروگرام کے ذریعے غربت کی شرح میں 13 فیصد تک کمی لانے کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔پاکستانی کرنسی روپے کو ڈالر سمیت دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم کرتے ہوئے ملکی معیشت میں استحکام لانے کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔
ڈیجیٹل سہولت کاری کے سلسلے میں آئی ٹی سٹارٹ اپس اور فری لانسنگ انڈسٹری کے لیے معاونت فراہم کی جائے گی جبکہ تکنیکی تحقیق، اختراع اور صنعتی ترقی کے لیے فنڈز اور گرانٹس کی صورت میں حکومتی مدد فراہم کی جائے۔
اڑان پاکستان کے اہداف زمینی حقائق کے برعکس ۔۔مگر کیسے؟
ماہرین اقتصادیات نے ‘اڑان پاکستان’ کے گیم چینجر دعویٰ کے برعکس ایسے چیلنجز کی نشان دہی بھی کی ہے کہ جس کے مطابق اڑان پاکستان میں طے کیے گئے اہداف کا حصول وطن عزیز کے موجودہ زمینی حقائق، سیاسی عدم استحکام اور امن عامہ کی بگڑتی صورتحال میں دشوار لگتا ہے۔
یہ نشان دہی بھی کی گئی ہے کہ پاکستان کی معیشت کا حکومت پہلے مرحلہ میں قلیل مدت کے اہداف حاصل کرنے کی بجائے طویل مدت اہداف کی طرف چل پڑی ہے۔یہاں تک کہ حکومت سے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مقرر کیے گئے قلیل المدتی اہداف کو بھی بالواسط طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ٹیکس وصولی کے اہداف بھی پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
چھ فیصد گروتھ ریٹ حاصل کرنا اور جی ڈی پی کا سائز ایک کھرب ڈالر تک لے جانا مشکل قرار دیا جارہا ہے کیونکہ پاکستانی معیشت اس مالی سال میں بڑی مشکل سے ایک فیصد تک شرح افزائش حاصل کر سکی ہے۔
ساٹھ ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کرنا اس لیے مشکل ہو گا کہ یہ ہدف ’انڈسٹری نے حاصل کرنا ہے جو اس میں سرمایہ کاری سے ہو گا جبکہ پاکستان میں انڈسٹری میں سرمایہ کاری کی حالت یہ ہے کہ یہ اس وقت 25 برسوں کی کم ترین سطح پر موجود ہے۔