
محمد ندیم قیصر (ملتان)
:تفصیلات
قیدی نمبر 804 سے پی ٹی آئی مذاکراتی ٹیم کی ملاقات کیوں نہ ہو پائی!حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے ہاتھ اٹھا دیئے۔
پی ٹی آئی کے بانی کے ساتھ پارٹی کی مذاکراتی ٹیم کی ملاقات کروائے جانے میں حکومت اپنی کمٹمنٹ کو کیونکر پورا نہ کر پائی اس حوالے سے حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی کے بیان سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ حکومت تو چاہتی تھی کہ ملاقات ہو جائے لیکن روکاوٹ کون سی نادیدہ یا دیدہ قوت بنی ہے کچھ نہیں پتہ ۔۔ البتہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کا کوئی بھی ممبر یہ ملاقات نہ کروا سکنے کا ذمہ دار نہیں ہے۔
ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ حکومت پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کی عمران خان سے ملاقات کا وعدہ پورا نہیں کر سکی البتہ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ کمیٹی کا کوئی رکن عمران خان کے ساتھ ملاقات کروانے کے لیے ذمہ دار نہیں ہے۔سینیٹرعرفان صدیقی نے مزید کہا کہ”جب ہم نے پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کی عمران خان سے ملاقات کروانے کی کمٹمنٹ دے دی تھی تو پوری کرنی چاہیے تھا، البتہ کمیٹی کا کوئی رکن ملاقات کروانے” کے لیے ذمہ دار نہیں۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ ’ہم جو وعدہ کرتے ہیں اُسے عملی جامہ پہنانا چاہیے تاکہ ہم جب اُن سے وعدہ پورا کرنے کا کہیں تو ہماری بات میں زیادہ وزن ہو۔‘ مگر جب بہت ساری شرائط ملاقات سے نتھی کردی جاتی ہیں تو مشکلات پیش آتی ہیں، حالانکہ ایک شخص بھی جا کر بانی پی ٹی آئی سے ہدایات لے کر آ سکتا ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی والے 40 دن سے اپنے مطالبات کی فہرست تیار کر رہے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں کہ چند گھنٹے میں جواب دیں ورنہ بات ختم ہو جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پی ٹی آئی سے دوسری ملاقات میں کہا تھا کہ ہمارے کوئی مطالبات نہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آگے بھی ہمارا کوئی مطالبہ نہیں ہو گا۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایسی انڈرسٹینڈنگ ہو کہ آئندہ کوئی بھی جماعت اسلام آباد آئے تو اس کا ایک طریقہ کار ہو۔
دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے پی ٹی آئی کے دونوں مطالبات تحریری طور پر حکومت کے حوالے کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے جو دو مطالبات پیش کیے گئے ہیں ان میں عمران خان سمیت تمام رہنماؤں اور کارکنان کی رہائی اور نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کا قیام شامل ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ حکومتی وزراءکی جانب سے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سے این آر او مانگ رہی ہے اور جب تک مطالبات تحریری طور پر نہیں دیئے جاتے تب تک مذاکرات آگے نہیں بڑھیں گے، تو بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ہمیں اپنے مطالبات تحریری طور پر دینے کی اجازت دے دی۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا ’حالانکہ ہمیں نہیں لگتا کہ ہمیں اپنے دو مطالبات ان کو تحریری طور پر دینے کی ضرورت ہے لیکن ہم نہیں چاہتے کہ وہ اس کو جواز بنائیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک ڈیل کا تعلق ہے تو اس کی ہم پہلے بھی تردید کر چکے ہیں کہ ’یہ مذاکرات کسی ڈیل کے لیے نہیں۔‘
پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات کے محدود مقاصد ہیں اور وہ جوڈیشل کمیشن کا قیام اور اسیران کی رہائی ہیں۔
جب ان سے علیمہ خان کے اس بیان کے بارے میں سوال کیا گیا جس میں انھوں نے دعوی کیا تھا کہ وزیرِ اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے ذریعے عمران خان کو ہاؤس اریسٹ پر بنی گالہ منتقل کرنے کی آفر کی گئی تھی تو بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں گنڈاپور کی جانب سے کبھی ایسا کوئی پیغام نہیں آیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے جب بھی مذاکرات ہوئے تو ہم اکٹھے تھے۔ ان کے مطابق یہ مذاکرات ابتدائی تھے اور وہ کسی بھی سٹیج پر کسی بھی آفر کی طرف بڑھے ہی نہیں۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے مطالبات تحریری طور پر جمع نہیں کروائیں گے۔
پی ٹی آئی کے ساتھ جاری مذاکرات پر بات کرتے ہوئے رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات کو اچھے انداز سے آگے بڑھانا چاہتے تھے۔
ہم چاہتے تھے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک نیشنل ڈائیلاگ ہو، اسی لیے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جو (مذاکراتی) کمیٹی بنائی اس میں اتحادی جماعتوں کے ارکان بھی شامل ہیں۔