
سدرہ فاروق (ملتان)
تفصیلات
ویمن یونیورسٹی میں یوم صحت کے حوالے سے سیمینار منعقد ہوا جس کا عنوان لڑکیوں کی کم عمری میں شادی اور اس کے نقصات اور قوانین کا نفاذ تھا ویمن یونیورسٹی میں سماجی تنظیم کے تعاون سے سیمینار کا اہتمام کیاگیا جس میں کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے آگاہی دی گئی لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے بڑھتے ہوئے رحجانات اور اسکے نقصانات کے حوالے سے آگاہی کے لیے منعقدہ سیمینار میں کم عمری میں شادی کی معاشی اور معاشرتی وجوہات پرروشی ڈالی گئی اورصحت، تعلیم کےماہرین نے شرکاء کو اس کے نقصانات سےآگاہ کیاکہ حکومت ایسی شادیوں کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قوانین پر صحیح معنوں میں عملدرآمد یقینی بنائے تو حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہو سکتے ہیں تقریب کی مہمان خصوصی پرووائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے کہا کہ کم عمری میں بچیوں کی شادی کر دینے سے وہ بہت سی جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔کم عمری کی شادی اور زچگی لڑکیوں کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لئے بڑا خطرہ ہے جس سے ان کی پوری زندگی متا ثر ہوتی ہے اور اس مسئلہ کا سب سے کارآمد حل تعلیم کا فروغ ہےپاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں روزانہ کم عمر بچیوں کی ایک بڑی تعداد کی شادی کر دی جاتی ہے اور یوں یہ کمسن بچیاں بچپن میں ہی حاملہ ہونے کی وجہ سے کئی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد تو اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتی ہے‘
کمسن لڑکیوں کی شادی بارے رسوم و رواج کی حوصلہ شکنی کر نے کی ضرورت
ملک میں رسم و رواج کے نام پر کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کو روکنے اور ایسا کرنے والوں کو سخت سزائیں دینے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے مقبول لیکن غلط تصورات کا خاتمہ ضروری ہے جن کے تحت لوگ مختلف امراض کے علاج کے لئے کم سن کنواری لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں۔‘’پاکستان میں دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے کا حل بھی تعلیم ہے ان کا کہنا تھا کہ ملک کا آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ پانچ سال سے 16 سال کی عمر تک کے ہر بچے اور بچی کو معیاری، مفت اور لازمی تعلیم دی جائے گی اور اگر صرف اس بات پر عمل کر لیا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل بشمول کم عمری کی شادیوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا‘ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاپولیشن ویفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر خضرنے کہا کہ 2050 ء تک پاکستان تیسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا دنیا کے پانچ سب سے زیادہ آبادی والے ممالک چین، بھارت، امریکہ، انڈونیشیا اور پاکستان ہیں ،ان کی مشترکہ آبادی 3.6 ارب ہے۔اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی ہے کہ عالمی آبادی 2100ء تک 10 ارب کے نشان کو عبور کر لے گی۔
آبادی میں اضافے کی شرح ہر ملک اور خطے کے لحاظ سے مختلف
آبادی میں اضافے کی شرح ہر ملک اور خطے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ کم عمری کی شادیوں کا چیلنج درپیش ہے ذمہ داریوں اور ماحول میں اچانک تبدیلیاں ان کے ذہن پر دباؤ پیدا کرتی ہے۔ ابھرتے ہوئے مطالبات سے نمٹنے کے لئے ان کی جسمانی اور نفسیاتی ناپختگی جیسی بیماریوں کا باعث بنتی ہے، ڈپریشن، سیپسس، لیبر، ایچ آئی وی وغیرہ شامل ہیں۔کم عمری کی میرج کا اثر آنے والی نسلوں پر بھی پڑتا ہے۔ ایک بچہ جو تعلیم یافتہ ماں کے ہاں پیدا ہوتا ہے اس کے پانچ سال کی عمر سے زندہ رہنے کا امکان50 فیصد زیادہ ہوتا ہے اور اسکول جانے کا امکان دوگنا ہوتا ہے سمینار سے معظمہ حسنین،انیلہ اشرف،بسم اللہ ارم،ڈاکٹرریما عمر،ڈاکٹر سلیمان یوسف،سمیرا ستارنے بھی خطاب کیا