
:محمد ندیم قیصر/عبدالسلام آہیر (ملتان)
:تفصیلات
ٹریفک کا مسئلہ اس وقت عالمی مسئلہ بن چکا ہے جس کے بہت ہی سنگین خطرات ہے ان خطرات کا تمام ممالک کو سامنا کرنا پر رہا ہے،ٹریفک کا سنگین مسئلہ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک میں بھی پایا جاتا ہے ہے ٹریفک کی وجہ سے نہ صرف عام عوام کا وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ وسائل کے نقصان کے ساتھ ساتھ ماحول پر بھی اثر پڑتا ہے۔
ٹریفک کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی ۔
ٹریفک کی وجہ سے بہت سی آلودگیاں جنم لیتی ہیں۔جیسا کہ ماحولیاتی آلودگی، ٹریفک کا ایندھن ضائع ہونے کی وجہ سے ماحول میں خطرناک قسم کی گیسںیں خارج ہوتی ہے جس سے ماحولپر گہرا اثر پڑتا ہے اور ماحول آلودہ ہو جاتا ہے۔ٹریفک کی وجہ سے شور کی آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے۔گاڑیوں کا شور اور انجن کی آوازے انسان کی ذہنی صحت پر اثر انداز کرتی ہے۔ان آلودگیوں کے علاوہ ٹریفک کی وجہ سے لوگوں کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔
پاکستان اور ترقی پزیر ممالک میں ٹریفک کی وجوہات۔
پاکستان اور ترقی پذیر ممالک میں بڑھتی ہوئی آبادی اور شہریوں کی نقل مکانی ٹریفک کا سبب بنتی ہے۔پاکستان میں لوگ اسلام آباد، لاہور، کراچی ،کا رخ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان شہروں کی آبادی حد سے تجاوز کر جاتی ہے اور پھر ٹریفک جنم لیتی ہے۔پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن انفراسٹرکچر پر بالکل بھی کام نہیں ہو رہا ۔ناقص انفراسٹرکچر کی وجہ سے لوگوں کو ٹوٹی ہوئی اور کم سڑکوں کی وجہ سے ٹریفک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ٹریفک قوانین پر عمل درامد نہ کرنے کی وجہ سے بھی ٹریفک کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ کچھ لوگ بغیر پارکنگ والی جگہوں پر اپنی گاڑیوں کو کھڑا کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے باقی لوگوں کو ٹریفک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گاڑیوں کی فٹنس اور انجن سے آلودگی (وسائل کی کمی)۔
پاکستان میں ہیلمٹ نہ پہننے والوں اور ڈبل سواری کرنے والوں پر قانون عمل درامد کرتا ہے اس کے برعکس گاڑیوں کی فٹنس اور انجن سے ہونے والی الودگی پر قانون عمل درامد کیوں نہیں کرواتا یہ ایک بہت اہم سوال ہے،دراصل گاڑیوں کی فٹنس چیک کرنے کے لیے خصوصی آلات (جیسے ایمیشن ٹیسٹنگ مشینیں) اور تربیت یافتہ عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں ٹریفکپولیس کے پاس اکثر وسائل کی کمی ہوتی ہے، اور فٹنس چیک کرنے کے لیے گاڑیوں کو سڑک سے ہٹا کر ٹیسٹنگ سٹیشنز پر لے جانا پڑتا ہے، جو وقت طلب اور پیچیدہ عمل ہے۔گاڑیوں سے ہونے والی آلودگی (ایمیشن) کی پیمائش کے لیے جدید آلات کی ضرورت ہوتی ہے، جو مہنگے ہیں اور ہر جگہ دستیاب نہیں۔ اس کے علاوہ، ان آلات کو چلانے کے لیے تربیت یافتہ عملہ بھی درکار ہوتا ہے، جو ایک اضافی چیلنج ہے۔
قانونی ڈھانچے میں خامی۔
گاڑیوں کی فٹنس اور ایمیشن سے متعلق قوانین موجود ہیں، لیکن ان کا نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے۔ موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 اور ماحولیاتی تحفظ کے قوانین کے تحت گاڑیوں کی فٹنس چیک کرنے کے رہنما اصول موجود ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد کے لیے کوئی مضبوط میکانزم نہیں بنایا گیا۔اگر ہم ویڈا بسوں سے ہونے والی آلودگی کی بات کریں تو حکومت کے پاس ویڈا بسوں سے ہونے والی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین موجود ہیں، لیکن ان کا نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وسائل کی کمی، بدعنوانی، ناقص انفراسٹرکچر، اور معاشی و سماجی دباؤ اس کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے جامع پالیسی، سخت نفاذ، اور عوامی ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری ضروری ہے۔ اگر حکومت اس طرف توجہ دے تو نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کم ہو سکتی ہے بلکہ عوامی صحت اور معیار زندگی بھی بہتر ہو سکتا ہے۔
فضائی آلودگی کے باعث سالانہ اموات ستر لاکھ کے لگ بھگ ۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق فضا میں موجود آلودگی کے صحت پر انتہائی خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سے پھیپھڑوں کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور سرطان بھی ہو سکتا ہے، دل کے امراض اس کے علاوہ ہیں۔ آپ فضائی آلودگی میں کم یا زیادہ وقت گزاریں، اس کے اثرات آپ پر ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچے، بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے، بوڑھے لوگوں اور غریب آبادی کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور زیادہ زہریلی اور صحت کے لیے ضرر رساں آلودگی قبل از وقت موت کی ایک نمایاں اور بنیادی وجہ ہے۔اسی طرح سے عالمی سوشل میڈیا کے مطابق فضا میں موجود آلودگی سے اموات کی سالانہ تعداد 70 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔سڑکوں سے پھیلنے والی آلودگی جیسا کہ دھواں اور گڑیوں کی فٹنس اور گڑیوں کے انجن کا شور شرابا بھی آلودگی کی سنگین ترین قسم ہے ۔اس کے علاوہ صنعتی علاقوں میں صنعت یونٹس کو ٹریٹمنٹ پلانٹس کی بغیر چلانے کے شکایت عام ہے ۔کھاد فیکٹریوں کا زہریلا دھوا بھی فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث ہے۔فصلوں کی باقیات کو دیہات میں جلانے کا رواج عام ہے اگرچہ متعلقہ سرکاری اداروں کی طرف سے فضائی آلودگی کا باعث بننے والوں کے خلاف کارروائی جارہی ہے لیکن یہ کارروائی فالو اپ نہ ملنے کے باعث مؤثر ثابت نہیں ہورہی ہے۔ دوسری طرف شہروں میں کوڑا کرکٹ جلانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے لیکن ان کا مؤقف یہ ہے کہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر دو تین پڑے رہ جائیں تو تعفن پھیل جاتا ہے ایسے حالات کوڑا کرکٹ جلائیں نہ تو پھر کیا کریں!