رپورٹ۔۔۔۔۔ فضہ حسین
ملک میں سونے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر، عالمی منڈی کے اثرات اور برآمدات سے متعلق آئی ایم ایف کی تشویشناک پیشگوئی
ملک میں سونے کی قیمت میں ایک بار پھر بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس کے بعد سونا تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں سونے کے نرخوں میں مسلسل اتار چڑھاؤ کے اثرات براہِ راست پاکستان کی مقامی صرافہ مارکیٹوں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ تازہ اضافے کے نتیجے میں فی تولہ سونے کی قیمت 4 لاکھ 53 ہزار 562 روپے کی سطح پر پہنچ گئی ہے، جو کہ اب تک کی بلند ترین قیمت قرار دی جا رہی ہے۔
آج ملک بھر کی صرافہ مارکیٹوں میں فی تولہ سونے کی قیمت میں 2 ہزار 700 روپے کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ اس اضافے کے بعد سونا عام شہریوں کی پہنچ سے مزید دور ہو گیا ہے، جبکہ زیورات کے خریداروں اور سرمایہ کاروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسی طرح 10 گرام سونے کی قیمت میں بھی 2 ہزار 315 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کے بعد 10 گرام سونے کی نئی قیمت 3 لاکھ 88 ہزار 856 روپے کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق سونے کی قیمتوں میں اس اضافے کی بنیادی وجہ عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا بڑھنا ہے۔ عالمی منڈی میں فی اونس سونا 27 ڈالر مہنگا ہوا، جس کے بعد فی اونس سونے کی قیمت بڑھ کر 4 ہزار 312 ڈالر تک جا پہنچی۔ عالمی سطح پر معاشی غیر یقینی صورتحال، مہنگائی، شرح سود میں اتار چڑھاؤ اور جیو پولیٹیکل کشیدگی جیسے عوامل سونے کو ایک محفوظ سرمایہ کاری سمجھنے کے رجحان کو بڑھا رہے ہیں، جس کے باعث اس کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور درآمدی لاگت میں اضافہ بھی سونے کی قیمتوں کو اوپر لے جانے کی ایک بڑی وجہ قرار دی جا رہی ہے۔ صرافہ مارکیٹ سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ جب تک عالمی مارکیٹ میں سونے کے نرخ بلند رہیں گے، مقامی سطح پر قیمتوں میں کمی کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔
سونے کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت سے متعلق ایک اور اہم پیشرفت بھی سامنے آئی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستانی برآمدات سے متعلق ایسی پیشگوئی کی ہے جو حکومتی دعوؤں سے خاصی مختلف ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ 2030 تک ملکی برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا، تاہم آئی ایم ایف نے اس ہدف کے برعکس ایک کم تخمینہ پیش کیا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق 2030 تک پاکستانی برآمدات 60 ارب ڈالر کے بجائے تقریباً 46 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے، جو کہ حکومتی ہدف سے 13 ارب 79 کروڑ ڈالر کم ہے۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی حالات، صنعتی پیداوار، توانائی کے مسائل اور عالمی منڈی میں مسابقت جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے برآمدات میں اس حد تک اضافہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اگلے سال پاکستان کی مجموعی برآمدات 36 ارب 46 کروڑ ڈالر تک جا سکتی ہیں۔ مالی سال 2028 میں برآمدات کا حجم 40 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے، جبکہ 2029 میں یہ تقریباً 43 ارب ڈالر رہیں گی۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ برآمدات میں بتدریج اضافہ متوقع ہے، تاہم یہ اضافہ حکومتی اہداف کے مطابق نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کی درآمدات سے متعلق بھی تخمینہ جاری کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2030 تک مجموعی درآمدات میں 18 ارب 70 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے، جو کہ تجارتی خسارے میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اگر برآمدات کی رفتار سست اور درآمدات میں اضافہ جاری رہا تو ملکی معیشت پر دباؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سونے کی قیمتوں میں اضافہ اور برآمدات سے متعلق کمزور پیشگوئی دونوں عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کو معاشی استحکام کے لیے ٹھوس اور دیرپا پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ صنعتی شعبے کی بہتری، برآمدی مصنوعات میں تنوع، توانائی کے مسائل کا حل اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کیے بغیر برآمدات کے بڑے اہداف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایک جانب سونے کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ عام شہری کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے، جبکہ دوسری جانب آئی ایم ایف کی رپورٹ نے ملکی معیشت کے مستقبل سے متعلق کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ آنے والے دنوں میں حکومت کی معاشی حکمت عملی اور عالمی منڈی کی صورتحال ہی یہ طے کرے گی کہ سونے کی قیمتوں اور برآمدات کے اہداف کا رخ کس سمت جاتا ہے۔