112

سرائیکستان قومی کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ احمد خان کھرل کانفرنس

:محمد ندیم قیصر (ملتان)

: تفصیلات

احمد خان کھرل تحریک آزادی کے عظیم ہیرو تھے۔ تعلیمی نصاب میں آزادی کے مشاہیر کے کارناموں کو اجاگر کیا جائے اور آزادی کی تاریخ نئے سرے سے مرتب کی جائے۔ ان خیالات کا اظہار سرائیکستان قومی کونسل کی طرف سے منعقدہ احمد خان کھرل کانفرنس سے چیئرمین ظہور دھریجہ نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صدارت پروفیسر ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی نے کی۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر نعمان طیب چنگوانی صدر پاکستان سرائیکی پارٹی، محمد مرتضیٰ خورشید سابق چیف انجینئر محکمہ انہار ملتان تھے۔ تقریب سے میر احمد کامران مگسی، پروفیسر پرویز قادر خان، شریف خان لاشاری، شعیب نواز خان بلوچ، ملک سعید وینس، قمر ہاشمی، میاں ندیم ڈاہا، ملک آصف آرائیں، ہاشم چمن رسول پوری، محسن عباس ملاح و دیگر نے خطاب کیا۔ ظہور دھریجہ نے کہا کہ احمد خان کھرل تحریک آزادی کے عظیم ہیرو تھے۔ 21 ستمبر ان کی یوم شہادت پر سرائیکستان قومی کونسل کی طرف سے ہر سال کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے موقع پر انگریزوں نے دہلی اور دیگر علاقوں میں ِحریت پسندوں کو بڑی تعداد میں قتل کر دیا تو اس کا اثر وسیب میں بھی ہوا ۔ رائے احمد خان کھرل کا تعلق قصبہ جھامرہ سے تھا ، انگریز دشمنی ان کے خون میں شامل تھی ۔اسسٹنٹ کمشنر برکلے نے کھرلوں ، فتیانوں اور دیگراقوام کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کرائیں اس پر رائے احمد خان کھرل میں سخت اشتعال پیدا ہوا اس نے تمام برادریوں کے سرداروں کو اکٹھا کیا ۔ ایک سپاہ تیار کی اور گھوڑوں پر سوار ہو کر گوگیرہ جیل پر حملہ آور ہوئے ،اس موقع پر انگریزوں سے شدید جنگ ہوئی اس جنگ میں چار سو انگریزی فوجی مارے گئے ۔رائے احمد خان کھرل نے قیدی چھوڑا لیے۔ انگریز گورنمنٹ کی بنیادیں ہل گئیں ۔ ہندوستان کے انگریز ایوانوں میں تھرتھلی مچ گئی اور اس تشویش نے برطانیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ انگریزوں نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے سب سے پہلے گوگیرہ کی ضلعی حیثیت ختم کی اور احمد خان کھرل کا مقابلہ کرنے کیلئے انگریزوں نے مخبر ،جاسوس اور غدار تلاش کئے ۔ چونکہ انگریزوں کی ہمت جواب دے گئی تھی وہ ان بہادروں کا دوبدو مقابلہ نہ کر سکتے تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی نے کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے موقع پر سرائیکی شعراء نے جنگی نغمے لکھے جسے ’’واراں‘‘ کا نام دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر شوکت مغل کی کتاب ’’ملتان دیاں واراں‘‘ کے نام سے شائع ہوئی اس وقت گوگیرہ کے شاعروں نے تحریک آزادی کے عظیم ہیرو رائے احمد خان کھرل شہید کو سرائیکی زبان میں خراج عقیدت پیش کیا۔ ڈاکٹر نعمان طیب چنگوانی اور محمد مرتضیٰ خورشید نے کہا کہ ’’واراں‘‘ پڑھنے سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام الفاظ سرائیکی ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انگریزوں کو مزاحمت سرائیکی وسیب یہ پھر سندھ میں پیش آئی ۔ سرائیکی رہنمائوں نے مزید کہا کہ سرائیکی وسیب میں مولانا عبیداللہ سندھی اور رائے احمد خان کھرل ہیرو کے طور پر سامنے آتے ہیں جبکہ سندھ میں سرائیکی زبان میں ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والے ہوشو شیدی کا نام سرفہرست ہے ۔ میر احمد کامران مگسی، پروفیسر پرویز قادر خان، شریف خان لاشاری اور شعیب نواز خان بلوچ نے کہا کہ تحریک آزادی کے عظیم ہیرو رائے احمد خان کھرل 1803ء میں گوگیرہ میں پیدا ہوئے ۔ اس قبیلہ کو کھرل شاخ گوگیرہ نے آباد کیا ۔ انہوں نے کہا کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مشاہیر کے کارناموں کو اجاگر کیا جائے تاکہ درست تاریخ متعین ہو سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں