82

امریکہ کی رال کیوں ٹپکتی ہے! بگرام میں اب ایسا کیا ہے؟درجنوں فوجی عمارتیں، اسلحے کے ذخائر اور اڈے!!۔

: محمد ندیم قیصر (ملتان)

: تفصیلات

بگرام ایئر بیس…افغانستان کا عسکری نگینہ، جس نے امریکہ کو انخلا کے بعد بھی ستایا!۔افغانستان کے دل میں، کابل کے کنارے پر، واقع ہے بگرام ایئر بیس— وہ اڈہ جسے صدی کی سب سے بڑی فوجی تنصیبات میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ اصل میں سوویت یونین نے 1980ء کی دہائی میں بنایا تھا، لیکن 2001ء میں امریکی حملے کے بعد یہ امریکہ کا سب سے بڑا قلعہ بن گیا۔ بگرام طاقت، جاسوسی اور تباہ کن فضائی قوت کی علامت تھا۔ابتداء سوویت یونین سے1979ء میں جب روسی افواج افغانستان آئیں تو انہوں نے سمجھا کہ زمین پر قبضہ تبھی قائم رہ سکتا ہے جب فضا پر بھی کنٹرول ہو۔ چنانچہ کابل کے شمال میں انہوں نے ایک بڑا فضائی اڈہ بنایا: بگرام بیس۔یہ بیس تقریباً 20 مربع کلومیٹر (یعنی 5 ہزار ایکڑ) پر پھیلا ہوا تھا۔
اس میں دو رن وے تھے: ایک 3.5 کلومیٹر طویل (جہاں بی -52 اور سی -5 جیسے دیوہیکل جہاز بھی اتر سکتے تھے) اور دوسرا چھوٹا رن وے، جو روسی استعمال کرتے تھے۔
بنیادی ڈھانچہ میں ہتھیار اور گولہ بارود کے بڑے ذخائر۔طیاروں اور گاڑیوں کی جدید ورکشاپس۔
افغانستان کا سب سے بڑا فوجی ہسپتال (سینکڑوں بستروں پر مشتمل)۔

جاسوسی اور ڈرون کنٹرول مراکز۔بیس میں 20 ہزار فوجیوں اور عملے کے لیے رہائش۔سی آئی اے کے خفیہ جیل ہیلی پیڈز اور کمانڈ پوسٹس۔روسیوں کے انخلا کے بعد بیس کچھ عرصہ غیر فعال رہا، لیکن یہ “سوئے ہوئے دیو” کی طرح اپنے نئے مالک کا انتظار کرتا رہا۔
امریکہ کا قبضہ11 ستمبر کے حملوں کے بعد ہوا٬جب امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو پینٹاگون کے لیے سب سے موزوں جگہ یہی تھی۔ تیار شدہ، کابل کے قریب اور وسعت کے لائق۔امریکہ نے اسے ازسرِ نو تعمیر کیا۔اس میں جدید ترین جاسوسی و مواصلاتی نظام نصب کیےاور بگرام سی آئی اے اور ڈرون آپریشنز کا مرکز بن گیا۔یہ دراصل جنگی ہیڈکوارٹر تھا، جہاں سے افغانستان پر امریکی کنٹرول قائم رہا۔

بگرام… سیاہ رازوں کاقبرستان

بگرام صرف فوجی اڈہ نہیں رہا، بلکہ وہاں خفیہ عقوبت خانے بھی بنائے گئے۔ سب سے بدنام “بلیک سیل” تھی، جہاں سینکڑوں قیدی بغیر کسی مقدمے کے اذیتوں کا شکار ہوئے۔ بگرام گویا “مشرق کا گوانتانامو” تھا۔
بگرام کیوں اہم ہے؟یہاں سے امریکہ بیک وقت ایران، پاکستان، چین اور روس پر نظر رکھ سکتا تھا۔یعنی یہ اڈہ آدھی دنیا کے تزویراتی توازن کو قابو میں رکھنے کا ذریعہ تھا۔امریکی انخلا: بھاگنے کی رات جولائی 2021ء میں امریکی فوج نے اچانک آدھی رات کو بگرام چھوڑ دیا— نہ افغان حکومت کو خبر دی، نہ اطلاع دی ۔جیسے کوئی ناکام چور اندھیرے میں فرار ہو جائے۔ چند ہی گھنٹوں میں طالبان نے بیس پر قبضہ کرلیا۔ یہ لمحہ امریکی سامراج کے ٹوٹنے کی زندہ تصویر تھا۔امریکہ کیوں لوٹنا چاہتا ہے؟اب ذلت آمیز انخلا کے بعد بھی ٹرمپ اور دیگر امریکی قیادت بگرام واپس لینے کی خواہش ظاہر کر رہی ہے کیونکہ یہ صرف ایک فوجی کیمپ نہیں بلکہ وسطی ایشیاء کی کنجی ہے۔مگر طالبان نے صاف انکار کردیا ہے۔اسی کھینچا تانی نے ایک نئی “خفیہ جنگ” کو جنم دیا ہے۔

المختصر بگرام میں اب کیا ہے؟درجنوں فوجی عمارتیں، اسلحے کے ذخائر اور اڈے۔رپورٹس کے مطابق امریکی جاسوسی کا جدید سازو سامان بھی وہیں رہ گیا۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ اب چین سمیت کئی ممالک اس کے باقیات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔بگرام محض ایک فوجی اڈہ نہیں بلکہ سوویت یونین کی شکست کی یادگار۔امریکہ کے غرور کا جنازہ۔اور ایک نیا “سرد جنگی ہتھیار”، جو مشرق و مغرب میں پھر کشیدگی بھڑکا سکتا ہے۔سچ یہی ہےکہ جو بگرام پر قابض ہو، وہ صرف افغانستان پر نہیں بلکہ مشرقی دنیا کے نصف حصے پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں