محمد ندیم قیصر (ملتان)
: تفصیلات
امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی مشترکہ پریس کانفرنس میں غزہ جنگ بندی پیکیج میں سنہرے مستقبل کے خواب دکھائے گئے لیکن حال میں صورت حال یہ ہے کہ بدترین قحط کے دھانے پر کھڑے غزہ کی طرف جانیوالے امدادی سامان کے بین الاقوامی قافلے کو اسرائیلی فوج کی طرف سے زبردستی روک لیا گیا ہے٬ بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع کروانے کیلئے موبائل اور سیٹلائیٹ فون چھین لیے گئے ہیں ۔ کم و بیش 44 چھوٹے بحری جہازوں پر مشتمل یہ امدادی قافلہ سپین ٬ یونان ٬ اٹلی اور تیونس کے ساحل علاقوں سے غزہ کی جانب اپنے امدادی سفر پر روانہ ہوا تھا لیکن غزہ کے قریب اسے روک لیا گیا ۔ اس امدادی قافلے نے صمود فلوٹیلا کے نام سے عالمی سوشل و ڈیجیٹل میڈیا پر اپنی پہچان بنائی ہے٬اس قافلے میں دو پاکستانی خیبر پختونخوا سے سابق سینیٹر مشتاق احمد اور لاہور کے پرفیوم تاجر عزیر بھی شامل ہیں ۔ ان دونوں پاکستانیوں کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ تیونس کے راستے غزہ کے اس عالمی امدادی قافلہ کو جوائن کرنے والے مشتاق اور وزیر دونوں اسرائیلی کارروائی سے پہلے تک رابطہ میں تھے لیکن موبائل اور سیٹلائیٹ فون چھین لیے جانے کے بعد سے یہ رابطہ تاحال منقطع ہے۔
فلوٹیلا کیا ہے اس کے پس منظر کے بارے میں بین الاقوامی سوشل ڈیجیٹل میڈیا پر دستیاب معلومات کے مطابق غزہ کے لیے امدادی کارروائیوں کے سلسلے میں رواں نئی صدی کے آغاز سے ہی فعال تنظیموں کا ایک مشترکہ فورم ہے اور پہلے یہ مشترکہ امدادی سرگرمیوں کا فورم۔ فری فلوٹیلا مشن اور فری غزہ موومنٹ کے نام سے پہچانا جاتا تھا٬ سٹیڈفاسٹنس فلوٹیلا جو شمالی افریقی ممالک کا ایک مشہور قافلہ ہے اور سٹیڈفاسٹنس نوسنتارا کہلاتا ہے٬ گلوبل صمود فلوٹیلا امدادی سامان سے لدی ہوئی کشتیوں کا ایک قافلہ ہے جس کی قیادت درجنوں ممالک سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن کر رہے ہیں۔اس فلوٹیلا میں سینکڑوں امدادی کارکن شامل ہیں اور ان کا تعلق پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے بتایا گیا ہے ٬فلوٹیلا کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس قافلے کا مقصد ’غزہ کی غیر قانونی سمندری ناکہ بندی توڑنا اور امداد کے لیے راہداری کھولنا ہے تاکہ فلسطینی عوام کے خلاف جاری نسل کشی کا خاتمہ ہو سکے۔غزہ کی سمندری ناکہ بندی توڑنے کے لیے یہ 38ویں کوشش ہے جس کی ابتدا 2008 میں ہوئی لیکن ماضی کے مقابلے میں سمندری راستے سے غزہ تک پہنچنے کی یہ اب تک کی سب سے بڑی کوشش قرار دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کی جانب سے غزہ شہر میں قحط کی تصدیق کے بعد امدادی قافلہ غزہ کی جنگ روانہ ہوا۔ اس قافلے میں شامل 44 چھوٹے بحری جہازوں نے سپین، اٹلی، یونان اور تیونس کے ساحل سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔اقوم متحدہ نے رواں سال اگست میں جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا تھا یہ قحط اگلے چند ہفتوں میں جنوبی اور وسطیٰ علاقوں تک پھیل سکتا ہے۔
غزہ کے مظلوم قحط زدہ عوام کیلئے روانہ بین الاقوامی امدادی قافلہ کی سمندری حدود میں بندش پر دنیا بھر میں احتجاج
غزہ کے مظلوم قحط زدہ عوام کیلئے روانہ بین الاقوامی امدادی قافلہ کی سمندری حدود میں بندش پر دنیا بھر میں احتجاج کیا جارہا ہے اس احتجاج میں چھوٹے بڑے ٬ انسانی حقوق کی تنظیمیں ٬ طلبہ و طالبات کے عالمی و علاقائی فورم ٬ مذہبی و سیاسی جماعتیں اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں تاکہ اسرائیلی فوج پر دباؤ بڑھایا اور صمود فلوٹیلا کی غزہ تک رسائی کو بحال کروایا جا سکے ٬ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ فلوٹیلا قافلہ کے سینکڑوں کارکنوں کو بظاہر روکا گیا ہے لیکن عملی طور پر ان کا بیرونی دنیا یہاں تک کہ عزیزِ و اقارب تک سے رابطہ منقطع کروا کے غیر اعلانیہ حراست میں رکھا گیا ہے۔