:محمد ندیم قیصر (ملتان)
: تفصیلات
چند ماہ پہلے کا قصہ ہے یا اس سے بھی پرانا ! لیکن آج کل تازہ ترین سیاسی ہلچل میں تلاطم پیدا کیے ہوئے ہے کہ علی امین گنڈا پور ایک نجی یا عوامی محفل میں دعویٰ کر رہے تھے کہ انہیں عمران خان نے وزیر اعلیٰ نہیں بنوایا٬ یہ جملہ سننا تھا کہ محفل میں موجود گنڈا پور کے اپنے یا “پرائے” سب چونک اٹھے. بعض نے مزید تفصیل جاننا چاہی تو بعض خیر خواہوں نے گنڈا پور کو مشورہ دیا کہ آپ احتیاط برتیں اور اگر کوئی آپ سے اس بابت استفسار بھی کرے تو آپ نے یہی کہنا ہے کہ مذاق میں بولا تھا٬ رات گئی بات گئی کے مصداق گنڈا پور کا یہ دعویٰ اس وقت تو سنجیدگی سے نہ لیا گیا لیکن جب سے گنڈا پور نے اپنے قائد عمران خان کے حکم پر خیبر پختونخوا کی وزارت اعلی سے استعفی دیا ہے لیکن یہ اطلاع زیر گردش ہے کہ آج کے جدید ترین مواصلاتی دور میں استعفیٰ ایک ہی شہر وہ بھی کے پی دارالحکومت پشاور میں گورنر ہاؤس تک نہیں پہنچ پایا تو چہ میگوئیاں شروع ہو چکی ہیں کہ کیا واقعی علی امین گنڈا پور کو وزیر اعلی بنانے کا فیصلہ عمران خان کا نہیں بلکہ “کسی اور ” کا تھا صرف عمران خان سے منظوری دلوانے کے قواعدو ضوابط کی رسمی کارروائی مکمل کی گئی تھی ۔
گنڈا پور کو استعفیٰ دینے کی بجائے مزاحمت پر بھی بعض یار لوگوں کی طرف اکسایا گیا لیکن جس انداز میں گنڈا پور نے بلا چوں چراں کیے استعفیٰ اپنے اس سوشل میڈیا تبصرہ کے ساتھ دے دیا کہ وزرات اعلیٰ عمران خان کی امانت تھی جسے میں ان کی (یعنی عمران خان) کی خواہش پر انہیں واپس لوٹا رہا ہوں ۔۔ گنڈا پور کا یہ بیانیہ اپنے قائد کی طرح یوٹرن سمجھا گیا٬ لیکن اب جب کہ ایک ہی شہر میں اقتدار کے ایک ایوان سے استعفیٰ والا اہم ترین کاغذ اسی شہر کے ایک اور اقتدار کی علامت والے ادارے تک نہیں پہنچ پایا تو گنڈا پور کا چند ماہ پہلے والے بیانیہ کی گونج صدائے بازگشت کی مانند سنائی دے رہی ہے کہ انہیں واقعی عمران خان نے وزارت اعلیٰ کے منصب پر نہیں بٹھایا تھا بلکہ وہ “بااثر ” کوئی اور تھے ۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے مستعفی ہونے کے بعد صوبہ کے نئے سربراہ کے طور پر سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے ممبر خیبر پختونخوا اسمبلی اور گنڈا پور سی ایم شپ عہد میں صوبائی وزیر رہنے والے سہیل آفریدی کو عمران خان نے چنا ہے لیکن انہیں وزیر اعلیٰ کے طور پر کیا تحریک انصاف کے قائد کے نام پر منتخب ہونے والے ارکان کے پی اسمبلی بھی چن پائیں گے یا نہیں ٬ یہ سوالیہ نشان یوں بنتا جا رہا ہے کہ “بااثر” طبقہ نے ایک ریفرنس کی آڑ میں عمران خان کے حامی ارکان اسمبلی کو آزاد قرار دے دیا ہے اور یوں انہیں اپنے اپنے” ضمیر کی آواز ” پر خیبر پختونخوا کا نیا وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کا اختیار بھی دے دیا ہے ٬ اب ان کا ضمیر آزاد ہوا ہے یا “کسی اور ” کی ضمیر کی آواز بن جائے گا ٬ اس کہانی میں ٹوئیسٹ یا مستقبل کا منظر دھندلا نہیں بلکہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ گنڈا پور کا استعفیٰ اگر قبول ہی نہیں ہونے دیا جاتا تو پھر نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی نوبت ہی نہیں آئے گا اور تازہ تازہ آزاد قرار دیئے گئے خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکین کا ووٹ گنڈا پور کو کے پی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ دلوانے میں کام بھی آسکتا ہے اور اگلے چھ ماہ تک استعفیٰ کا معاملہ “وڑ ” سکتا ہے۔
دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے خیبر پختونخوا اسمبلی میں منتخب ممبران کی گنتی کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے کہ 145 کے خیبر پختونخوا ایوان میں جے یو آئی ممبران اسمبلی کی تعداد اس 43 ہے اور انہیں سادہ اکثریت ثابت کر کے صوبہ کے اقتدار پر براجمان ہونے کیلئے صرف 20 ووٹ درکار ہیں اور تین سال پرانی کہانی دھرائی جا سکتی ہے کہ جب وفاق میں عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کیلئے اچانک سے ممبران قومی اسمبلی کے ضمیر جاگ اٹھے تھے کہ جو تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچے تھے اور یوں عمران خان کی حکومت کا دھڑن تختہ ہو گیا تھا ۔۔
خیبر پختونخوا میں اس وقت عمران خان کے نام پر ووٹ حاصل کرکے صوبائی ایوانِ میں پہنچنے والے منتخب ممبران کی تعداد 93 ہے جو کہ سادہ اکثریت سے 20 ووٹ زیادہ ہے لیکن آزاد قرار دیئے جانے کے بعد اگر 20 یا اس بھی دو تین زائد ارکان اسمبلی کا ضمیر اچانک سے جاگ اٹھا تو قومی اسمبلی کی تین سالہ پرانی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے ۔۔۔ لیکن۔۔۔ اس کی نوبت تب ہی آئے گی جب گنڈا پور کا استعفیٰ “پراسرار گلی کوچوں” سے ہوتا ہوا بالآخر گورنر ہاؤس تک پہنچ پائے گا۔۔!!