51

ہراسمنٹ ایشوز میں عوام کی ریلیف کیلئے قائم ادارہ سائبر کرائم فیڈرل ایف آئی اے وسائل کی کمی کے ہاتھوں خود ہراسگی کا شکار

: محمد ندیم قیصر (ملتان)

: تفصیلات

ہراسمنٹ کے حساس ترین ایشوز میں عوام کی ریلیف کیلئے قائم کیے فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) خود وسائل کی کمی کے ہاتھوں ہراسگی کا شکار ہے٬ ادارہ پر بوجھ میں مسلسل اور تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔

بین الاقوامی ڈیجیٹل میڈیا گروپ سائن وے گروپ کے ایس جی نیوز کے خصوصی پروگرام “قانون ہمارا” کے میزبان سلمان صیم کے ساتھ سوال جواب سیشن میں سائبر کرائم کے ماہر قانون ارسلان خان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے میں سائبر کرائم شعبہ کا قیام یقیناً وقت کا تقاضہ تھا لیکن یہ شعبہ وسائل کی کمی کے باعث خاطر خواہ نتائج نہیں دے پارہا ہے انہوں نے کہا کہ اس وقت سائبر کرائم کے شعبہ پر مالی نوعیت ۔ شخصی یا ادارہ کی بدنامی اور کسی خاتون یا مرد کو ہراساں کیے جانے کے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد پریشر آف ورک کا باعث بنی ہے ٬ انہوں نے کہا پورے جنوبی پنجاب تک پھیلے ہوئے سائبر کرائم ملتان ریجن میں تفتیشی عملہ کی تعداد پریشر آف ورک کے مقابلہ میں انتہائی قلیل ہے٬ ملتان کے سائبر کرائم سیل میں تفتیشی عملہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ سٹاف انسپکٹرز سمیت 15 اہلکاروں تک مشتمل ہے٬ اس سٹاف نے جوڈیشل کارروائی کے سلسلے میں فاضل عدالتوں میں بھی پیش ہونا ہے٬ٹرائل کومکمل کروانا ہے ٬ پرانے مقدمات کی تفتیش کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے٬ نئے مقدمات پر بھی نئی تفتیش و تحقیقات کا آغاز کرنا ہے۔
پریشر آف ورک اور حساس نوعیت کے مقدمات میں متاثرہ فریق کو فوری ریلیف فراہمی کے سرکاری ایس او پیز بارے انہوں نے کہا کہ ہراسمنٹ مقدمات میں صرف 24 گھنٹوں میں ہراساں کرنیوالے ملزم کو حراست میں لیے جانے اور تفتیش میں لانے کا حکم ہے لیکن ملزم کو حراست میں لینے کیلئے اگر شہر سے شہر سے دور دراز کسی علاقہ میں جا کر ریڈ کرنا ہے تو سائبر کرائم شعبہ کے پاس صرف ایک سرکاری گاڑی ہے۔
میزبان سلمان صیم کے اس توجہ دلاؤ سوال پر کہ ان قلیل وسائل کو امیر طبقہ یا اثر و رسوخ رکھنے والا طبقہ تو اپنے ایشوز کیلئے غریب اور پسماندہ طبقہ کے فرد کے مقابلہ میں زیادہ آسانی سے بروئے کار لا سکتا ہے٬!!؟ سائبر کرائم کے ماہر قانون سلمان خان کا کہنا تھا کہ وکیل٫ سیاستدان یا میڈیا پرسن کے لیے تو سائبر کرائم وسائل کے استعمال میں آسانی اس لیے ہو سکتی ہے کہ انہیں اس شعبہ کے بارے میں معلومات عام آدمی کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہیں اس لیے جنہیں عمومی طور پر بااثر طبقہ قرار دیا جاتا ہے ٬ وہ زیادہ مؤثر أگاہی کے باعث زیادہ جلدی مستفید ہو جاتے ہیں۔
وکلاء برادری کی جانب سے پیشہ وارانہ خدمات کی فراہمی کے سلسلے میں سلمان خان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے سائل اہم ہے اس کا سٹیٹس نہیں٬ اس لیے چاہے ہمارا سائل امیر ہے یا غریب ٬ معاشرے کے کمزور طبقہ سے یا مقتدر ٬ ایک پروفیشنل وکیل کی حیثیت سے پوری دیانتداری سے سائل کو ریلیف دلوانے کا فریضہ پوری دیانتداری سے انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں