
: محمد ندیم قیصر (ملتان)
: تفصیلات
:چلاس بابو سر میں کلاؤڈ برسٹ کی پیشگوئی کے باوجود سیاحوں نے سفر و سیاحت میں احتیاط نہ برتی اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ انکشاف سیاحت پر مختلف کتابوں کے مصنف قیصر عباس صابر نے اپنی وال پوسٹ میں کیا ہے انہوں نے کلاؤڈ برسٹ سانحہ سے دوچار عکاسی کا نقشہ بھی اپنی وال پر شیئر کیا جس میں انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ جیسے ہی آپ بابو سر ٹاپ کی بلندی 13700 فٹ پر پہچنے کے بعد آگے چلاس کی طرف بڑھتے ہیں تو بلندی سے ایک دم نیچے سڑک اترتی ہے اور دس پندرہ کلو میٹر دور ہی آپ 14000 سے 4000 فٹ سطح سمندر پر آجاتے ہیں۔۔بابو سر ٹاپ کا پانچ ڈگری کا درجہ حرارت ایک دم نیچے آنے سے 40 ڈگری کا ہو جاتا ہے۔۔جہاں میں نے سرخ نشان لگایا ہے یہ چلاس اور آگے جگلوٹ تک ایک گرم علاقہ ہے۔۔
شدید گرمی اور مون سون کی نم ہواوں کی وجہ سے ایک سسٹم ڈویلپ ہوتا ہے، جو سپر سیل میں تبدیل ہو کر ایسا کلاوڈ برسٹ بنتا ہے
قیصر عباس صابر جو کہ پیشہ کے اعتبار سے نامور وکیل ہیں لیکن سیر و سیاحت کا جنوں اور کتب نگاری کا عشق رکھتے ہیں انہوں نے مزید بتایا کہ
ذرا غور کریں کہ اس پیالے نما ٹرین کے اردگرد صرف چند کلومیٹر پر گلیشئر ہی گلیشئر اور آئیس کیپ ہیں ۔۔نانگا پربت بھی پاس ہے۔اب یہاں شدید گرمی اور مون سون کی نم ہواوں کی وجہ سے ایک سسٹم ڈویلپ ہوتا ہے، جو سپر سیل میں تبدیل ہو کر ایسا کلاوڈ برسٹ بنتا ہے کہ اس بارش سے کچھ چھوٹے گلیشئر بھی ٹوٹ جاتے ہیں جن سے سائیڈ سکرٹ کے ندی نالے پانیوں سے بھر جاتے ہیں اور بابو سر سے چلاس روڈ کے ساتھ چلتے دریا میں شامل ہوکر اس کی سطح کو لمحوں میں بلند کرتے ہیں اور ساتھ میں دونوں اطراف کے خشک مٹی اور پتھر والے پہاڑوں کو لپیٹ میں لیتے ہوئے ایک سیلابی ریلے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس سے دریا اور سڑک میں فرق ختم ہو جاتا ہے جو زد میں آیا سب بہہ گیا۔
بین الاقوامی موسمیاتی سٹیشن کی پیشگوئی نظر انداز۔سانحہ کے شکار پہاڑی علاقوں میں سیاحت کا موزوں موسم مئی ، جون اور جولائی کا پہلا ہفتہ۔
نامور سیاح و سفر نامہ نگار قیصر عباس صابر ایڈووکیٹ نے انکشاف کیا کہ بین الاقوامی موسمیاتی سٹیشن پر اس آفات کی مکمل فورکاسٹ 15 دن پہلے ہی دی جا چکی تھی۔۔
سیاحت کا موزوں موسم مئی ، جون اور جولائی کا پہلا ہفتہ ہے ۔ آپ اپنی فراغت کے مطابق نہیں ۔۔پہاڑوں کے مزاج کے مطابق سیاحت کا شیڈول ترتیب دیں ۔۔یہ آفات ہر سال جولائی میں آتی ہیں اور اموات دے کر چلی جاتی ہیں ۔انہوں نے سوشل میڈیا وال پر پوسٹ کیے گئے مضامین اور سفرناموں کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ میرے سفر ناموں و مضامین کے دیباچے اس بات کے شاہد ہیں کہ گزشتہ بیس برسوں سے سیاحتی علاقوں میں جولائی تباہی لاتا ہے اور اگست بربادی۔