رپورٹ۔۔۔۔۔ فضہ حسین
رپورٹ۔۔۔۔۔ فضہ حسین
لوگ ووٹ گھوڑے کو ڈالتے ہیں لیکن نکل کھوتے کو آتا ہے
ضمنی الیکشن میں ن لیگ کی
ضمنی انتخابات میں سامنے آنے والے نتائج کے بعد ملکی سیاست میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ اتوار کے روز منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مختلف حلقوں میں اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا گیا، جس کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں نے نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انتخابی عمل کے بارے میں تحفظات بھی اٹھائے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ضمنی انتخابات میں مجموعی طور پر ووٹر ٹرن آؤٹ حیرت انگیز طور پر کم رہا، جسے ملکی سیاسی ماحول میں بڑھتی ہوئی بے اعتمادی کی علامت تصور کیا جا رہا ہے۔ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکمران جماعت کیلئے یہ نشستیں حاصل کرنا آسان سمجھی جا رہی تھیں، تاہم پھر بھی ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنز تک لانے میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہو سکی۔
بعض ٹی وی رپورٹس کے مطابق فیصل آباد سمیت چند شہروں میں ووٹر ٹرن آؤٹ اس قدر کم تھا کہ بعض علاقوں میں مساجد کے ذریعے اعلانات بھی کیے گئے تاکہ شہری اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرنے کے لئے گھروں سے نکل سکیں۔
انتخابی ماحول اور عوامی رویے سے متعلق پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ ٹرن آؤٹ نصف سے بھی کم رہا، جو عوام کی عدم دلچسپی یا انتخابی عمل پر اعتماد میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے مطابق انتخابات کا حسن عوام کی بھرپور شرکت میں ہوتا ہے، جو اس بار کہیں نظر نہیں آیا۔
تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں نے بھی انتخابی عمل پر شدید اعتراضات اٹھائے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی نے باضابطہ طور پر ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور ان کے مطابق عوام نے اس فیصلے کی حمایت کی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ملک بھر میں ٹرن آؤٹ محض 15 تا 18 فیصد رہا، جبکہ بڑی تعداد نے انتخابات میں حصہ نہ لینے کو ترجیح دی۔ پی ٹی آئی کے مطابق ایسے انتخابات عوامی نمائندگی کا تقاضا پورا نہیں کرتے اور نتائج کو غیر مؤثر قرار دینے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔
بعض رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ انتخابی ماحول اس قدر محدود تھا کہ امیدواروں کو اپنی مہم چلانے اور پوسٹرز تک لگانے کی اجازت نہیں ملی، جس کے باعث انتخابی عمل شفافیت سے محروم رہا۔ ان کے مطابق الیکشن کمیشن منصفانہ اور غیر جانبدار انتخابات کرانے میں ناکام رہا اور شفافیت یقینی بنانے کے لیے ایک نئے آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی تشکیل ضروری ہے۔
حکومتی اقدامات کے بارے میں بھی مختلف حلقوں نے سوالات اٹھائے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے الزام عائد کیا کہ انتظامی سطح پر ایسی رکاوٹیں پیدا کی گئیں جن کی وجہ سے انتخابی عمل یکطرفہ نظر آیا۔ ان کے مطابق عوام نے موجودہ انتخابی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ انتخابی اصلاحات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔
ادھر خیبرپختونخوا سے بھی انتخابی نتائج پر اختلافات سامنے آئے۔ صوبائی حکومت کے معاونِ خصوصی اطلاعات شفیع جان نے دعویٰ کیا کہ ہری پور میں فارم 45 کے مطابق نتائج مختلف تھے، جبکہ اعلان کردہ نتائج اس کے برعکس آئے۔ ان کے مطابق صوبے میں انتظامیہ نے اپنی سطح پر شفافیت کی کوشش کی، مگر ان کے بقول الیکشن کمیشن اور متعلقہ افسران کے بعض فیصلوں نے معاملات کو مشکوک بنا دیا۔
شفیع جان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں 8 فروری کے عام انتخابات میں بھی بعض نشستوں پر ”مینڈیٹ متاثر ہونے‘‘ کا الزام لگایا گیا تھا، اور اب ضمنی انتخابات میں بھی اسی نوعیت کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اس معاملے کی انکوائری کرے گی اور اگر کوئی اہلکار یا افسر اس عمل میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
یہ تمام دعوے اور اعتراضات اپنی جگہ، مگر مجموعی طور پر ضمنی انتخابات نے ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ عوام کے ایک بڑے حصے میں انتخابی عمل پر عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اس اعتماد کو بحال نہ کیا گیا، تو مستقبل میں بھی انتخابی ٹرن آؤٹ اور سیاسی شمولیت متاثر ہو سکتی ہے۔
انتخابات جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہیں، مگر اس ستون کو مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو مکمل آزادی، شفافیت اور مساوی مواقع فراہم کیے جائیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے اعتراضات اور عوامی بے رُخی اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ انتخابی اصلاحات کا مطالبہ اب محض سیاسی نعرہ نہیں رہا بلکہ وقت کی ضرورت بن چکا ہے
ضمنی انتخابات میں سامنے آنے والے نتائج کے بعد ملکی سیاست میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ اتوار کے روز منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مختلف حلقوں میں اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا گیا، جس کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں نے نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انتخابی عمل کے بارے میں تحفظات بھی اٹھائے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ضمنی انتخابات میں مجموعی طور پر ووٹر ٹرن آؤٹ حیرت انگیز طور پر کم رہا، جسے ملکی سیاسی ماحول میں بڑھتی ہوئی بے اعتمادی کی علامت تصور کیا جا رہا ہے۔ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکمران جماعت کیلئے یہ نشستیں حاصل کرنا آسان سمجھی جا رہی تھیں، تاہم پھر بھی ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنز تک لانے میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہو سکی۔
بعض ٹی وی رپورٹس کے مطابق فیصل آباد سمیت چند شہروں میں ووٹر ٹرن آؤٹ اس قدر کم تھا کہ بعض علاقوں میں مساجد کے ذریعے اعلانات بھی کیے گئے تاکہ شہری اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرنے کے لئے گھروں سے نکل سکیں۔
انتخابی ماحول اور عوامی رویے سے متعلق پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ ٹرن آؤٹ نصف سے بھی کم رہا، جو عوام کی عدم دلچسپی یا انتخابی عمل پر اعتماد میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے مطابق انتخابات کا حسن عوام کی بھرپور شرکت میں ہوتا ہے، جو اس بار کہیں نظر نہیں آیا۔
تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں نے بھی انتخابی عمل پر شدید اعتراضات اٹھائے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی نے باضابطہ طور پر ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور ان کے مطابق عوام نے اس فیصلے کی حمایت کی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ملک بھر میں ٹرن آؤٹ محض 15 تا 18 فیصد رہا، جبکہ بڑی تعداد نے انتخابات میں حصہ نہ لینے کو ترجیح دی۔ پی ٹی آئی کے مطابق ایسے انتخابات عوامی نمائندگی کا تقاضا پورا نہیں کرتے اور نتائج کو غیر مؤثر قرار دینے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔
بعض رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ انتخابی ماحول اس قدر محدود تھا کہ امیدواروں کو اپنی مہم چلانے اور پوسٹرز تک لگانے کی اجازت نہیں ملی، جس کے باعث انتخابی عمل شفافیت سے محروم رہا۔ ان کے مطابق الیکشن کمیشن منصفانہ اور غیر جانبدار انتخابات کرانے میں ناکام رہا اور شفافیت یقینی بنانے کے لیے ایک نئے آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی تشکیل ضروری ہے۔
حکومتی اقدامات کے بارے میں بھی مختلف حلقوں نے سوالات اٹھائے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے الزام عائد کیا کہ انتظامی سطح پر ایسی رکاوٹیں پیدا کی گئیں جن کی وجہ سے انتخابی عمل یکطرفہ نظر آیا۔ ان کے مطابق عوام نے موجودہ انتخابی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ انتخابی اصلاحات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔
ادھر خیبرپختونخوا سے بھی انتخابی نتائج پر اختلافات سامنے آئے۔ صوبائی حکومت کے معاونِ خصوصی اطلاعات شفیع جان نے دعویٰ کیا کہ ہری پور میں فارم 45 کے مطابق نتائج مختلف تھے، جبکہ اعلان کردہ نتائج اس کے برعکس آئے۔ ان کے مطابق صوبے میں انتظامیہ نے اپنی سطح پر شفافیت کی کوشش کی، مگر ان کے بقول الیکشن کمیشن اور متعلقہ افسران کے بعض فیصلوں نے معاملات کو مشکوک بنا دیا۔
شفیع جان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں 8 فروری کے عام انتخابات میں بھی بعض نشستوں پر ”مینڈیٹ متاثر ہونے‘‘ کا الزام لگایا گیا تھا، اور اب ضمنی انتخابات میں بھی اسی نوعیت کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اس معاملے کی انکوائری کرے گی اور اگر کوئی اہلکار یا افسر اس عمل میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
یہ تمام دعوے اور اعتراضات اپنی جگہ، مگر مجموعی طور پر ضمنی انتخابات نے ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ عوام کے ایک بڑے حصے میں انتخابی عمل پر عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اس اعتماد کو بحال نہ کیا گیا، تو مستقبل میں بھی انتخابی ٹرن آؤٹ اور سیاسی شمولیت متاثر ہو سکتی ہے۔
انتخابات جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہیں، مگر اس ستون کو مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو مکمل آزادی، شفافیت اور مساوی مواقع فراہم کیے جائیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے اعتراضات اور عوامی بے رُخی اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ انتخابی اصلاحات کا مطالبہ اب محض سیاسی نعرہ نہیں رہا بلکہ وقت کی ضرورت بن چکا ہے