رپورٹ ۔۔۔۔۔۔فضہ حسین
پاکستان میں بیروزگاری 21 سال کی بلند ترین سطح پر، شرح 7.1 فیصد تک جا پہنچی — تفصیلی رپورٹ
پاکستان میں بیروزگاری ایک بار پھر تشویشناک سطح پر پہنچ گئی ہے۔ وزارتِ منصوبہ بندی و ترقی کی جانب سے جاری تازہ ترین لیبر فورس سروے کے مطابق مالی سال 2025ء کے اختتام تک ملک میں بیروزگاری کی شرح 21 سال کی بلند ترین سطح، یعنی 7.1 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ یہ اضافہ نہ صرف معاشی سست روی کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ملک میں روزگار کے مواقع کی محدود دستیابی بھی ظاہر کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2021ء سے 2025ء کے درمیان بیروزگار افراد کی تعداد میں 14 لاکھ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں معاشی حالات نے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقے پر شدید اثر ڈالا ہے۔
چار سال قبل ملک میں بیروزگار افراد کی تعداد 45 لاکھ تھی، تاہم موجودہ سروے کے مطابق اس تعداد میں اضافہ ہوکر 59 لاکھ تک پہنچ چکا ہے۔ سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان 59 لاکھ بیروزگار افراد میں سے 46 لاکھ یعنی 77 فیصد ایسے افراد ہیں جو پڑھے لکھے ہیں، جبکہ ان میں سے 10 لاکھ کے پاس اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں موجود ہونے کے باوجود وہ روزگار حاصل نہیں کر پا رہے۔ یہ صورتحال ملک کے تعلیمی نظام اور لیبر مارکیٹ کے درمیان بڑھتے ہوئے خلاء کی واضح عکاس ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ بیروزگار افراد کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے جہاں تقریباً 35 لاکھ لوگ روزگار سے محروم ہیں۔ خیبرپختونخوا میں بیروزگار افراد کی تعداد 12 لاکھ کے لگ بھگ ہے، سندھ میں 10 لاکھ شہری ملازمت کی تلاش میں ہیں، جبکہ بلوچستان میں بیروزگار افراد کی تعداد تقریباً 2 لاکھ بتائی گئی ہے۔ یہ علاقائی اعداد و شمار ملک میں معاشی ترقی کے غیر متوازن ہونے کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
لیبر فورس سروے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ بیروزگاری کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، خصوصاً 15 سے 29 سال کی عمر کے افراد سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ وہ عمر ہے جب نوجوان عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور صحت مند معیشت میں روزگار کے بہتر مواقع تلاش کرتے ہیں، لیکن موجودہ معاشی صورتحال ان کی توقعات کے بالکل برعکس ہے۔
روزگار کے مختلف شعبوں میں تبدیلیوں نے مجموعی صورتحال پر براہِ راست اثر ڈالا ہے۔ سروے کے مطابق 2020/21ء میں روزگار میں زرعی شعبے کا حصہ 37.4 فیصد تھا، جو کم ہو کر 2024/25ء میں 33.1 فیصد رہ گیا۔ اس کی وجہ زرعی پیداوار میں کمی، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہے جس نے انسانی محنت کی ضرورت کم کر دی۔ اس کے برعکس سروسز کا شعبہ تیزی سے پھیل رہا ہے، جو 37.2 فیصد سے بڑھ کر 41.2 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ انڈسٹری کا حصہ اس عرصے میں 25.4 فیصد سے کم ہوکر 24.9 فیصد رہ گیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ صنعتی ترقی مطلوبہ رفتار سے نہیں بڑھ رہی۔
سروے میں شہری اور دیہی علاقوں میں بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ شرح 5.8 فیصد سے بڑھ کر 6.3 فیصد ہوگئی، جبکہ شہری علاقوں میں یہی شرح 7.3 فیصد سے بڑھ کر 8 فیصد تک پہنچ گئی۔ شہری بیروزگاری میں اضافے کی ایک بڑی وجہ صنعتوں کا بند ہونا، کارخانہ جات کی پیداوار میں کمی اور مہنگائی میں تیزی سے ہونے والا اضافہ ہے جس نے کاروباری سرگرمیوں کو محدود کر دیا۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے سروے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو آبادی میں تیز رفتار اضافے جیسے سنگین چیلنج کا سامنا ہے، جو اب قومی ایمرجنسی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آبادی کی موجودہ شرحِ اضافہ برقرار رہی تو 2040ء تک پاکستان کی آبادی 40 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے، جس کے لیے موجود وسائل ناکافی ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک صحت مند، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نسل کی تشکیل کے لیے آبادی پر مؤثر کنٹرول ضروری ہے، اور حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر ایک جامع آبادی منصوبہ بندی حکمتِ عملی پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کیلئے ملکی صنعت، زراعت، آئی ٹی اور سروسز سیکٹر کو جدید خطوط پر استوار کرنا ناگزیر ہے۔ بصورتِ دیگر معاشی دباؤ بڑھتا جائے گا جس کے نتیجے میں بیروزگاری مزید بڑھ سکتی ہے۔
ماہرین معاشیات کے مطابق موجودہ بیروزگاری کی بلند شرح کئی عوامل کا نتیجہ ہے جن میں معاشی عدم استحکام، امن و امان کے مسائل، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی، توانائی بحران اور کاروبار کے بڑھتے ہوئے اخراجات شامل ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا بیروزگار ہونا اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ یا تو مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں یا پھر ملکی معیشت ان کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
بہرحال، لیبر فورس سروے کے نتائج حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج اور توجہ طلب مسئلہ ہیں۔ اگر حکومت روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے، معیشت کو مستحکم کرنے اور آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی تو آنے والے برسوں میں صورتحال مزید گھمبیر ہونے کا اندیشہ ہے