MyStake Casino stands out in the online gaming landscape, offering players generous welcome bonuses that enhance the excitement from the very start. New users can explore a plethora of games with enticing promotions designed to maximize their bankroll and gaming experience. To learn more about these fantastic offers, visit mystake casino today!
21

چاند پر خاموشی کی نصف صدی: انسان 1972 کے بعد دوبارہ کیوں نہ جا سکا؟

رپورٹ ۔۔۔۔فضہ حسین
چاند پر خاموشی کی نصف صدی: انسان 1972 کے بعد دوبارہ کیوں نہ جا سکا؟

14 دسمبر 1972 انسانی تاریخ کا ایک غیر معمولی دن تھا، جب اپالو 17 مشن کے خلاباز جین سرنان اور ہیریسن شمٹ نے چاند کی سطح پر آخری بار قدم رکھا۔ اس لمحے کے بعد نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، مگر انسان دوبارہ چاند کی مٹی کو چھو نہ سکا۔ یہ سوال آج بھی شدت سے پوچھا جاتا ہے کہ جب 1969 میں انسان چاند تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا تھا تو پھر 1972 کے بعد یہ سفر کیوں رک گیا؟

اس سوال کا جواب صرف سائنس یا ٹیکنالوجی تک محدود نہیں بلکہ سیاست، معیشت، عالمی حالات اور ترجیحات کے بدلتے دھاروں سے جڑا ہوا ہے۔ اپالو پروگرام دراصل سرد جنگ کے دور کی پیداوار تھا، جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان خلائی برتری کی شدید دوڑ جاری تھی۔ چاند پر قدم رکھنا محض ایک سائنسی کامیابی نہیں بلکہ عالمی سیاست میں طاقت اور برتری کی علامت تھا۔ جیسے ہی امریکہ اس دوڑ میں کامیاب ہوا، چاند پر مزید انسانی مشنز کی سیاسی اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔

1970 کی دہائی کے آغاز تک امریکی حکومت کو یہ احساس ہونے لگا کہ چاند پر دوبارہ انسان بھیجنے سے کوئی نئی اسٹریٹجک یا سیاسی برتری حاصل نہیں ہوگی۔ چنانچہ وہ جوش و جذبہ، جس نے اپالو مشنز کو ممکن بنایا تھا، آہستہ آہستہ سرد پڑ گیا۔ سیاسی قیادت نے اپنی توجہ زمین پر موجود سنگین مسائل کی طرف موڑ لی، جن میں ویتنام کی جنگ، معاشی بحران، مہنگائی اور اندرونی سیاسی عدم استحکام شامل تھے۔

ایک اور بڑی وجہ مالی دباؤ تھا۔ اپالو پروگرام اپنی نوعیت کا سب سے مہنگا سائنسی منصوبہ تھا، جس پر آج کے حساب سے تقریباً دو سو ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اتنی خطیر رقم کے بعد امریکی ٹیکس دہندگان اور پالیسی سازوں کے لیے یہ سوال اہم ہو گیا کہ کیا چاند پر مزید انسانی مشنز واقعی اس سرمایہ کاری کے مستحق ہیں؟ جب زمین پر غربت، جنگ اور معاشی مسائل موجود ہوں تو خلا پر بے تحاشا اخراجات عوامی حمایت کھونے لگتے ہیں۔

اسی دوران سائنسی سوچ میں بھی نمایاں تبدیلی آئی۔ سائنس دانوں اور خلائی ماہرین نے یہ محسوس کیا کہ تحقیق کے لیے انسان کو براہِ راست چاند پر بھیجنا اب ناگزیر نہیں رہا۔ روبوٹک اور بغیر انسان کے مشنز تیزی سے ترقی کر رہے تھے۔ یہ مشنز نہ صرف کم خرچ تھے بلکہ انسانی جان کے خطرے کے بغیر زیادہ دیر تک تحقیق کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان خودکار مشنز نے چاند کی سطح، اس کی ساخت، معدنی وسائل اور تاریخ کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کیں، جس سے انسانی مشنز کی فوری ضرورت مزید کم ہو گئی۔

انسان بردار خلائی مشنز ہمیشہ شدید خطرات سے بھرپور ہوتے ہیں۔ خلا میں تابکاری، تکنیکی خرابی، لمبے سفر کے جسمانی و ذہنی اثرات، اور واپسی کے پیچیدہ مراحل ایسے عوامل تھے جنہوں نے چاند پر دوبارہ انسان بھیجنے کے فیصلے کو مزید مشکل بنا دیا۔ اگرچہ ٹیکنالوجی میں بہتری آتی رہی، مگر حفاظتی معیار اور اخراجات دونوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ نتیجتاً حکومتوں نے محتاط رویہ اختیار کیا اور انسانی مشنز کو مؤخر رکھا۔

تاہم چاند کبھی بھی انسانی دلچسپی سے مکمل طور پر غائب نہیں ہوا۔ گزشتہ پچاس برسوں میں متعدد ممالک نے روبوٹک مشنز کے ذریعے چاند تک رسائی حاصل کی۔ ان مشنز نے مستقبل کی راہیں ہموار کیں اور یہ ثابت کیا کہ چاند اب بھی سائنسی، معاشی اور اسٹریٹجک لحاظ سے بے حد اہم ہے۔

آج دنیا ایک بار پھر نئی خلائی دوڑ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ امریکہ کا آرٹیمس پروگرام، چین اور روس کے مشترکہ منصوبے، اور بھارت کی بڑھتی ہوئی خلائی کامیابیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ چاند دوبارہ عالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ آرٹیمس پروگرام کے تحت آنے والے برسوں میں انسان کو دوبارہ چاند پر بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، اس بار مقصد صرف وہاں پہنچنا نہیں بلکہ طویل المدتی انسانی موجودگی کو ممکن بنانا ہے۔

نئی ٹیکنالوجی، بہتر حفاظتی نظام، اور خلا کی بڑھتی ہوئی معاشی اہمیت نے چاند کو دوبارہ ترجیح بنا دیا ہے۔ مستقبل کے منصوبوں میں چاند کو نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں، خصوصاً مریخ، تک جانے کے لیے ایک لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔ اس طرح چاند محض ایک منزل نہیں بلکہ انسانیت کے بین السیاراتی سفر کا پہلا مضبوط قدم بن سکتا ہے۔

1972 سے آج تک کا یہ طویل وقفہ بظاہر حیران کن ضرور ہے، مگر جب اسے سیاسی حالات، مالی ترجیحات، سائنسی حکمتِ عملی اور تکنیکی خطرات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک فطری نتیجہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ وقفہ دراصل رُکاؤٹ نہیں بلکہ تیاری کا زمانہ تھا۔

آج انسان ایک بار پھر اسی سوال کے سامنے کھڑا ہے: کیا ہم دوبارہ چاند پر قدم رکھنے کے لیے تیار ہیں؟ اور کیا اگلی بار کا یہ سفر محض علامتی ہوگا یا انسانیت کے مستقبل کے لیے نئے دروازے کھول دے گا؟ ایک بات طے ہے کہ چاند تک کا سفر کبھی ختم نہیں ہوا، یہ صرف ایک صبر آزما وقفہ تھا، اور اب یہ وقفہ اپنے اختتام کے قریب دکھائی دیتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں