رپورٹ۔۔۔۔ فضہ حسین
ملکی قرض میں دوگنا اضافہ، عام آدمی بدحال، سیاسی استحکام اور معاشی اصلاحات ناگزیر قرار — رہنماؤں کا انتباہ
ملک میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران، سیاسی عدم استحکام اور جمہوری اقدار کو درپیش خطرات پر پاکستان تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنماؤں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی قرض ماضی کے مقابلے میں دگنا ہو چکا ہے، مگر اس کا کوئی فائدہ عام آدمی تک نہیں پہنچ سکا۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کو اس وقت شدید سیاسی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے، جن سے نکلنے کے لیے سنجیدہ اور اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شوکت یوسفزئی نے اے آر وائی نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا قرض خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، مگر عوام کی زندگی میں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ مہنگائی، بے روزگاری اور کاروباری جمود نے عام شہری کی کمر توڑ دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل ضرورت سیاسی استحکام کی ہے، کیونکہ جب تک ملک میں سیاسی سکون نہیں ہوگا، معاشی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
شوکت یوسفزئی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سیاست اپنی جگہ ضروری ہے، مگر کسی بھی جماعت یا فرد کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق انتقامی سیاست نے نہ صرف جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ریاستی اداروں پر بھی منفی اثرات ڈالے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پی ٹی آئی سے پہلے بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور بعد میں بھی، مگر مسائل جوں کے توں برقرار ہیں۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول کا ذکر کرتے ہوئے شوکت یوسفزئی آبدیدہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس اندوہناک واقعے کے وقت شہید بچوں کے والدین کے درمیان موجود تھے اور وہ لمحہ پوری قوم کے لیے انتہائی کٹھن تھا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ایسا دن دوبارہ نہ دکھائے۔ ان کے مطابق اس مشکل وقت میں پوری قوم متحد ہوئی اور اسی اتحاد کے نتیجے میں دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج بھی قوم کو اسی طرح کے اتحاد کی ضرورت ہے، مگر بدقسمتی سے ہم اس وقت شدید سیاسی تقسیم کا شکار ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بھی ملکی صورتحال پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت سرحدی سطح پر سنگین چیلنجز درپیش ہیں، جس کے باعث تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ کاروبار بند ہونے سے نہ صرف روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں بلکہ معیشت بھی شدید دباؤ میں آ گئی ہے۔
اسد قیصر نے اعلان کیا کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے فروغ کے لیے ایک ہمہ گیر کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اس کانفرنس میں حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں، سول سوسائٹی، وکلا برادری اور میڈیا کو مدعو کیا جائے گا تاکہ ملک کے بنیادی مسائل پر کھل کر بات کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں بلکہ اداروں کی مضبوطی، آئین کی بالادستی اور عوامی شمولیت سے ہی جمہوری نظام مستحکم ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا آفتاب احمد شیرپاؤ کو بھی دعوت دی گئی، جنہوں نے شرکت کی حامی بھر لی ہے۔ اسد قیصر نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر آنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
18ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ کی مشترکہ جدوجہد کا نتیجہ تھی، جس کے ذریعے صوبوں کو بااختیار بنایا گیا۔ ان کے مطابق اب اطلاعات آ رہی ہیں کہ 18ویں ترمیم پر نظرثانی کی جا رہی ہے، این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلیوں کی بات ہو رہی ہے اور نئے صوبوں کے قیام کے اشارے بھی دیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ انتہائی حساس معاملات ہیں اور ان پر کسی بھی قسم کا یکطرفہ فیصلہ ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ایسے قومی نوعیت کے فیصلوں میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ اگر تمام اکائیاں متفق نہیں ہوں گی تو اس کے نتائج منفی نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ وفاق کی مضبوطی صوبوں کے حقوق کے تحفظ سے جڑی ہوئی ہے، اور کسی بھی قسم کی آئینی چھیڑ چھاڑ اتفاقِ رائے کے بغیر نہیں ہونی چاہیے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق ملک اس وقت جس نازک موڑ پر کھڑا ہے، وہاں ذاتی مفادات اور سیاسی ضد کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی استحکام، معاشی اصلاحات اور جمہوری اقدار کا تحفظ نہ کیا گیا تو مسائل مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے اپیل کی کہ تمام سیاسی قوتیں ہوش کے ناخن لیں اور پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں