
:محمد ندیم قیصر (ملتان)
:تفصیلات
بجلی کے بھاری بھرکم ماہانہ بل سے بچنے کیلئے عوام نے جمع پونجی سے سولر انرجی پینل لگوائے اور بجلی کے سرکاری کنکشن کو نیٹ میٹرنگ سسٹم پر منتقل کروا کے ابھی سکون کا سانس بھی نہ لیا تھا کہ حکومت کی رال ٹپک پڑی اور سولر کے بغیر چلنے والے عام بلکہ مڈل کلاس بجلی صارفین کے وسیع تر مفاد میں نیٹ میٹرنگ بجلی خریداری پالیسی میں ترمیم کردی جس کے نتیجے میں نیٹ میٹرنگ سسٹم کے تحت بجلی لگوانے والوں نے ابھی سکون کا سانس نہ لیا تھا۔
کہ حکومت نے نیٹ میٹرنگ سسٹم کی بجلی خریداری کا فی یونٹ نیا ٹیرف متعارف کروادیا جس کے تحت اب حکومت نے نیٹ میٹرنگ سے متعلق نئی پالیسی کی منظوری دی ہے۔ اور یکدم فی یونٹ 17 روپے کمی کے ساتھ اضافی بجلی خریداری کا جھٹکا لگا دیا نیٹ میٹرنگ سسٹم سے استفادہ کرنیوالے لاکھوں بجلی صارفین پر حکومت کا یہ ترمیمی اعلان بجلی بن کے گرا کہ بجلی سولر انرجی پینل سے تیار ہونیوالی بجلی کا ایک یونٹ اب حکومت 27 روپے کی بجائے صرف 10 روپے فی یونٹ کے حساب سے خریدے گی ۔
اس طرح نیٹ میٹرنگ صارفین کو فی یونٹ 17 روپے خسارہ کا جھٹکا لگا ہے ۔اگرچہ حکومت اس ترمیمی پالیسی کے اعلان سے پہلے والے نیٹ میٹرنگ صارفین کو یہ تسلی تشفی دے رہی ہے کہ 27 روپے کی بجائے 10 روپے فی یونٹ والی ترمیمی پالیسی کا ان پر اطلاق نہیں ہو گا مگر نیٹ میٹرنگ صارفین اسے محض طفل تسلی خیال کر رہے ہیں کہ نجانے کب حکومت انہیں بھی نیٹ میٹرنگ سسٹم کے ریلیف گروپ سے نکال باہر نہ کر دے ۔ یہ وہم یا تلخ حقائق پر مبنی ایشوز کی تلوار لٹکا دی گئی ہے۔
سستی بجلی کی تلاش میں مہنگے سولر انرجی پینل خریدنے والوں کی جیب پر نیٹ میٹرنگ سسٹم بھی بھاری پڑ نے لگا ۔
سستی بجلی کی تلاش میں مہنگے سولر انرجی پینل خریدنے والوں کی جیب پر نیٹ میٹرنگ سسٹم بھی بھاری پڑ نے لگا ۔کورونا کرائسز سے نکلنے کے بعد خاص کر سال 2022ء میں رجیم چینج کے بعد جب بجلی کے نرخ میں تسلسل سے بھاری بھرکم اضافہ کیا جانے لگا تو اس وقت سولر انرجی پینل کا ٹرینڈ بھی ایسا بنا کہ سولر انرجی کی مانگ مارکیٹ میں سپلائی سے تجاوز کر گئی اور سولر انرجی پینل کا عام ڈیلر بھی مافیا بن گیا دیکھتے ہی دیکھتے عام درجہ کا سولر پینل کا ریٹ بھی آسماں پر پہنچ گیا۔
خریداروں کا بجٹ بگڑ گیا لیکن مجبوری یہ بھی تھی کہ ہوشربا لوڈ شیڈنگ کے باوجود یونٹ کو ٹیرف بلندیوں کو چھو رہا تھا جس پر ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ زیور بیچ کر بھی سولر انرجی پینل لگوانا پڑے ۔ بجلی یونٹ کے ساتھ ڈالر کے بے وقعتی نے بھی سولر انرجی پینل کی بیرون ممالک سے خریداری معاہدوں کی لاگت کو متاثر کیا ۔ اگرچہ عام انتخابات 2024ء سے قبل نگران دور حکومت میں سولر انرجی پینل کے نرخ میں تیزی سے کمی آئی اور بجلی یونٹ کے ہوشربا نرخ نے سولر انرجی پینل کے ٹرینڈ کو یوں بھی برقرار رکھا کہ جدید دور کی جدید سہولت اور بجلی کے بھاری بھرکم نرخ سے ریلیف نے بھی انرجی سولر پینل کی اہمیت کو ڈائمنڈ بنادیا۔
عوام کیلئے ریلیف کا باعث سولر انرجی اور نیٹ میٹرنگ سسٹم حکومت کیلئے درد سر کیوں اور کیسے بن گیا !۔
اس بیانیہ کا پس منظر یہ ہے کہ عام صارفین کے بجلی بل لاکھوں تک پہنچنے کے ہوشربا ایشو نے عوام کو حکومت کے سامنے لاکھڑا کیا اور کڑی تنقید کو بادل ناخواستہ برداشت کرنیوالی حکومت کی چولیں ہل کر رہ گئیں اس دوران حکومت کو توانائی ماہرین کی طرف سے یہ الرٹ بھی دے دیا گیا تھا کہ نیٹ میٹرنگ سسٹم کا ٹرینڈ بجلی پیداوار کے رینٹل پاور معاہدوں کیلئے ادائیگی کے سرکاری نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دے گا اور پھر ہوا بھی یہی کہ عوام کو سولر انرجی اور نیٹ میٹرنگ سسٹم میں ریلیف ملنے کے عرصہ میں بجلی کنکشن کے براہ راست نظام سے نہ صرف لاکھوں صارفین باہر نکل گئے۔
لکہ الٹا اپنی اضافی بجلی کا 27 روپے فی یونٹ کے لحاظ سے بجلی کمپنیوں سےآمدنی بھی حاصل کرنے لگے۔ نیٹ میٹرنگ سسٹم کو منظم نہ بنا سکنے میں ناکام حکومت کو یوں بھگتنا پڑا کہ لاکھوں صارفین بجلی بل ادائیگی نیٹ ورک سے آؤٹ ہو گئے اور حکومت پر رینٹل پاور معاہدوں والی کمپنیوں کو ادائیگی کا بوجھ بڑھتا چلا گیا اس بوجھ کو سرکاری وسائل سے کم کرنے کیلئے ادا کرنے کی بجائے حکومت نے یہ بوجھ بجلی کنکشن والے صارفین پر اضافی بلوں کی صورت میں ڈال دیا جس سے عوامی سطح پر انتشار کی نئی بدترین صورت حال نے جنم لی۔
عام انتخابات کے بعد بننے والی مخلوط حکومت نیٹ میٹرنگ صارفین کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ گئی۔
عام انتخابات 2024ء میں منتخب ہونیوالی پیپلز پارٹی مسلم لیگ اور دیگر اتحادی جماعتوں کی مخلوط حکومت نے توانائی بحران سے نمٹنے بھاری بھرکم بلوں اور رینٹل پاور کمپنیوں کے ساتھ ادائیگی کے معاملات کے لیے نئی حکمت عملی بنائی ہے جس کے تحت رینٹل پاور کمپنیوں کے ساتھ نئے معاہدے حالات حاضرہ کے تناظر میں کیے گئے ہیں۔ دوسری طرف نئے نیٹ میٹرنگ سسٹم کنکشن کیلئے سابقہ ٹیرف 27 روپے کی بجائے 10 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خریداری کا ٹیرف متعارف کروایا ہے ۔ وفاقی حکومت کی معاون اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھی نیٹ میٹرنگ صارفین سے بجلی کی خریداری سے متعلق ایسی پالیسی کی منظوری دی ہے جس کے تحت صارفین سے بجلی کا ایک یونٹ 27 روپے کے بجائے صرف 10 روپے میں خریدا جائے گا۔
اور نیٹ میٹرنگ پالیسی سے متعلق یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ نیٹ میٹرنگ صارفین سولر پینلز سے حاصل ہونے والی بجلی کو اپنے گھروں میں استعمال کریں گے اور حکومت گھریلو سولر پینل انرجی کو نئے طے شدہ معاہدہ کے بدلے خود خریدے گی۔
حکومت کا نیٹ میٹرنگ سستی بجلی خریداری پالیسی پر اصرار لیکن بجلی چور کو لگام ڈالنے میں ناکام۔
کورونا بحران کے بعد پاکستان میں اقتدار کا پاور پلے چل پڑا اور اس چل چلاؤ میں پی ٹی آئی کی حکومت کو چلتا کردیا گیا۔
نئی مخلوط حکومت نہ صرف پٹرولیم مصنوعات کے نرخ اور بجلی یونٹ ٹیرف کے نرخ کو کنٹرول کرنے میں یکسر طور پر ناکام ہوگئی اور دوسری طرف بجلی خسارہ اصل ذمہ دار بجلی چوروں کو بھی لگام ڈالنے میں بے بس دکھائی دے رہی ہے اور بجلی کمپنیوں کی اس مبینہ نااہلی کا براہ راست خمیازہ باقاعدہ بل ادا کرنیوالے صارفین کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نیٹ میٹرنگ صارفین کو اپنی اضافی بجلی انتہائی کم نرخ پر بیچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ توانائی شعبہ کے ماہرین حکمرانوں سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ رینٹل پاور نجی کمپنیوں کو بغیر ڈسپلن کے دھڑا دھڑ پاور پلانٹس کیوں لگانے دیئے گئے اور ان سے کئی برسوں کے معاہدے بھی کر لیے گئے۔ ان پلانٹس کو کیپسٹی پیمنٹ بھی دی جارہی ہے۔
ماہرین توانائی کا یہ بھی موقف جاندار ہے کہ حکومت کا یہ کہنا کہ سولر سسٹم لگانے والوں کی وجہ سے ٹیرف میں اضافہ ہوا یہ غلط ہے۔
سولر انرجی پینل کے نیٹ میٹرنگ سسٹم کے صارفین بارے حکومت کا اعلامیہ الارمنگ۔
سولر انرجی پینل کے نیٹ میٹرنگ سسٹم کے صارفین بارے حکومت کا اعلامیہ یوں بھی الارمنگ خیال کیا جا رہا ہے کہ بجلی کے ریگولیٹری ادارے نیپرا کو ہدایت کی گئی ہے کہ نیٹ میٹرنگ صارفین کے ٹیرف کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جاتا رہنا چاہیئے تاکہ ضرورت پڑنے پر نیٹ میٹرنگ صارفین کے ٹیرف میں اضافہ کیا جا سکے ۔
تاہم سرکاری حلقوں کی جانب سے نئی پالیسی کا نفاذ پرانے نیٹ میٹرنگ صارفین پر نہیں ہوگا ۔
نیٹ میٹرنگ پالیسی میں ترمیم کی وجہ سرکاری سطح پر یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ نیٹ میٹرنگ صارفین کے باعث بجلی کے عام صارفین پر اضافی بلوں کا بوجھ پڑ رہا تھا لیکن عملی طور پر عام صارفین آج بھی بھاری بھرکم بجلی بل کا بدستور رونا رو رہے ہیں ۔