
:محمد ندیم قیصر (ملتان)
:تفصیلات
نامور قانون دان اور تاریخ کے مطالعہ میں منفرد نام اور مقام پانے والے خالد محمود بخاری نے بھارتی فوج کے دانت کھٹے کرنے والی افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپہ سالار کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے کر دراصل پاک فوج کے ہر سپاہی اور افسر کی بیمثال جنگی مہارت کا سرکاری سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔ ایس جی نیوز ویب سائٹ کیلئے اپنے خصوصی کالم میں ڈرگ کورٹ فیصل آباد کے سابق چیئرمین خالد محمود بخاری نے فیلڈ مارشل کی اہمیت اور سپہ سالار پاکستان کو اس عہدے کیلئے موزوں شخصت اور حقدار قرار دیتے ہوئے کہا کہ فیلڈ مارشل کا عہدہ: عسکری وقار کا بلند مینارہے۔جب کوئی قوم اپنے محسنوں کو عزت دیتی ہے تو درحقیقت وہ اپنی تاریخ کو وقار بخشتی ہے۔ اسی عزت و وقار کا ایک نمائندہ عہدہ ہے فیلڈ مارشل۔انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں فیلڈ مارشل کا درجہ اتنا ہی نایاب ہے جتنا کہ زمرد میں ہیرا۔ برطانیہ، روس، چین، بھارت جیسے بڑے ملکوں نے چند گنے چنے افراد کو یہ درجہ عطا کیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ رینک کسی دفتر یا آرڈر سے نہیں بلکہ قوم کے اجتماعی شعور اور عسکری تاریخ کی چھانٹی کے بعد کسی کو نصیب ہوتا ہے۔فیلڈ مارشل کا عظیم مقام مرتبے والا عہدہ عسکری عظمت کا آئینہ دار ہےفیلڈ مارشل کا عہدہ ایک قوم کے عسکری شعور، تاریخ کی سچائی، اور قیادت کی قدردانی کا آئینہ ہے۔ یہ صرف ایک فوجی عہدہ نہیں بلکہ قوم کے اجتماعی حافظے پر ثبت وہ سطر ہے جو نسلوں کو قربانی، فرض شناسی اور حب الوطنی کا سبق دیتی ہے۔قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو اپنے محسنوں کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ ان کی عزت کو نشانِ راہ بناتی ہیں۔ فیلڈ مارشل ایک ایسا ہی نشان ہے—بلند، نایاب، اور قابلِ تقلید مثال کا نام ہے۔
فیلڈ مارشل محض رینک نہیں بلکہ عسکری بصیرت کا زندہ مجسمہ ۔ یہ مقام صرف ہتھیار تھامنے والے کو نہیں بلکہ تاریخ تراشنے والے کو دیا جاتا ہے: تاریخ دان خالد محمود بخاری۔
خالد محمود بخاری نے مزید کہا کہ فیلڈ مارشل یہ ایک ایسا عسکری مرتبہ ہے جو محض رینک نہیں، بلکہ ایک اعتماد، قربانی اور عسکری بصیرت کا زندہ مجسمہ ہوتا ہے۔ یہ مقام صرف ہتھیار تھامنے والے کو نہیں بلکہ تاریخ تراشنے والے کو دیا جاتا ہے۔فیلڈ مارشل پانچ ستاروں والا عسکری درجہ ہے، جو افواج کی کمان کا بلند ترین اعزاز ہوتا ہے۔ یہ منصب کسی جنرل کے بعد اعلیٰ ترین عہدہ ہے، لیکن اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عام طور پر حاضر سروس میں نہیں بلکہ جنگی یا قومی خدمات کے اعتراف میں بطور اعزاز دیا جاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں یہ رینک صرف چند شخصیات کو دیا گیا ہے، جو قوم کے لیے نشانِ فتح، نظم و قیادت، اور قربانی کی علامت ہیں۔انہوں نے عالمی عسکری تاریخ میں فیلڈ مارشل کا اعزاز پانے والوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ برطانیہ میں لارڈ مونٹگمری، دوسری جنگِ عظیم کے ہیرو تھے، جنہوں نے افریقہ میں رومیل کو شکست دی۔ڈوق آف ولنگٹن نے نپولین کے خلاف واٹرلو کی جنگ میں فتح پائی ۔ماضی کے سوویت یونین موجودہ روس کے جورجی ژوکوف نے برلن فتح کیا اور ہٹلر کے خلاف آخری فیصلہ کن لڑائی کی قیادت کی۔جرمنی کے فیلڈ ایروِن رومیل، “ڈیزرٹ فاکس” کہلائے، جن کی عسکری حکمتِ عملی آج بھی عسکری اداروں میں پڑھائی جاتی ہے۔بھارت کی سازش سے 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا بھارت نے اسے جنگی فتح قرار دیااور سمر مانیک شا کو فیلڈ مارشل بنادیا ۔
پاکستان میں فیلڈ مارشل عہدہ کی سنہری تاریخ ۔ جنرل محمد ایوب خان کے بعد موجودہ سپہ سالار پاکستان بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔
افواج پاکستان کی 65ء کے بعد 2025ء کی جنگوں میں بیمثال کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے خالد محمود بخاری نے کہا کہ پاکستان میں فیلڈ مارشل عہدہ کی سنہری تاریخ ہے۔ جنرل محمد ایوب خان کے بعد موجودہ سپہ سالار پاکستان جنرل عاصم منیر کی قیادت میں افواج پاکستان نے بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ اور سرکاری طور پر ان دونوں سپہ سالاروں کی عسکری جنگی خدمات کا سرکاری سطح پر اعتراف کیا گیا فیلڈ مارشل کا سب سے بڑے عظیم عہدہ عطا کیا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے 1958ء میں مارشل لا نافذ کر کے ملک کا نظم و نسق سنبھالا اور 1959ء میں خود کو فیلڈ مارشل مقرر کیا۔اگرچہ انہوں نے فوج کی تنظیمِ نو، معاشی ترقی، اور خارجہ پالیسی میں بعض اصلاحات متعارف کروائیں، لیکن ان کا فیلڈ مارشل بننا عسکری پیشہ ورانہ خدمات سے زیادہ سیاسی پس منظر رکھتا تھا۔یہ اعزاز پاکستان میں فخر اور تنقید دونوں کا مرکز بنا رہا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کوئی عسکری اعزاز سیاسی خود پرستی کے تابع ہو جائے تو وہ اپنی عظمت کھو بیٹھتا ہے۔انہوں نے فیلڈ مارشل کے عہدہ ۔ اعزاز یا مقامِ فرض کے حوالے سے مزید کہا کہ فیلڈ مارشل کا درجہ کوئی تنخواہ، مراتب یا اختیارات کا نام نہیں۔ یہ ایک ایسی چادر ہے جو ایک سپاہی کے کندھوں پر صرف اس وقت ڈالی جاتی ہے جب وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو قومی خدمت کے مینار پر بلند کر چکا ہو۔