12

پی ٹی آئی ایم این اے کی بلاول بھٹو پر ایسی تنقید!! ایوان میں قہقے لگ گئے

پاپولر پولیٹکس کا لولی پاپ

salman mukhtar

کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ بلاول صاحب کے چہرے پر چھپی مسکراہٹ کے پیچھے جھانک کر دیکھا جائے کہ آخر وہاں کیا چل رہا ہے۔ کیا واقعی ان کے دل میں بھی کبھی عوامی سیاست کی چنگاری بھڑکتی ہے؟ لگتا تو یہی ہے — کبھی کبھی ان کے لہجے میں وہی پرانی بی بی کی بازگشت سنائی دیتی ہے، وہی جذبہ، وہی جنون جو کبھی عوام کے سمندر کو جوش میں لے آتا تھا۔ مگر پھر اچانک ایک سایہ سا ان پر چھا جاتا ہے، جیسے کوئی اندر سے کہہ رہا ہو: “پتر، بندے دا پتر بن۔” اور وہ سایہ کسی اور کا نہیں، آصف علی زرداری صاحب کا ہوتا ہے — سیاست کے اس شاطر کھلاڑی کا، جو جانتا ہے کہ جذبہ ووٹ دلا تو دیتا ہے، مگر اقتدار سنبھالنے کے لیے حساب کتاب، سود و زیاں، اور مفاہمت کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔

پاکستان کی سیاست میں پاپولر پولیٹکس ایک خواب ہے — خواب بھی ایسا جو ہر کوئی دیکھتا ہے، مگر جاگنے کے بعد یاد نہیں رکھتا۔ کبھی عوام کے حقوق کی بات، کبھی بلدیاتی نظام کی بحالی، کبھی اختیارات کی تقسیم — ہر بار نعرہ وہی، وعدہ وہی، انجام وہی۔ ہر الیکشن کے بعد ایم کیو ایم کو ایک نیا “لولی پاپ” دیا جاتا ہے، کبھی 26ویں ترمیم میں، کبھی 27ویں میں، کبھی کسی کمیٹی کے کمرے میں۔ کاغذوں پر اختیارات کا سمندر بہا دیا جاتا ہے، مگر زمین پر ایک بوند نہیں گرتی۔ اور جب سوال اٹھتا ہے کہ “کہاں گئی لوکل گورنمنٹ کی طاقت؟” تو جواب آتا ہے — “بیٹے، ابھی وقت نہیں آیا۔”

یہی وہ سیاست ہے جو وعدے کرتی ہے مگر وفا نہیں۔ یہ وہ پارلیمان ہے جہاں تقریریں تو گونجتی ہیں، مگر قانون سویا رہتا ہے۔ جہاں دل کے بوجھ اتارنے کے لیے الفاظ ہیں، مگر عوام کے بوجھ اتارنے کے لیے عمل نہیں۔ مقرر کھڑا ہو کر شکوے کرتا ہے، طنز برساتا ہے، نظم سنانے کا وعدہ کرتا ہے — اور ہم سامعین، تالیاں بجاتے ہیں جیسے کسی تھیٹر میں بیٹھے ہوں۔ سیاست ایک تماشا بن چکی ہے، جہاں ہر کردار اپنے مکالمے یاد کر کے آتا ہے، مگر اسکرپٹ ہمیشہ وہی پرانا ہوتا ہے۔

“ہم ان کے ماننے والے ہیں جنہوں نے اپنے نانے دے دین دی خاطر گردناں کٹائیاں…”
یہ جملہ سن کر دل کانپ جاتا ہے، مگر اگلا منظر دل توڑ دیتا ہے۔ کیونکہ وہی لوگ جن کے نانوں نے آئین کے لیے قربانیاں دیں، آج اسی آئین کا حلیہ بگاڑنے والوں کے ساتھ میز پر بیٹھے ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے جمہوریت کے لیے قید و بند برداشت کیے، دوسری طرف وہ جو اسی جمہوریت کے پر کترتے رہے — اور اب دونوں ایک ہی صف میں بیٹھے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

ایم کیو ایم کی بات چلی تو یاد آیا، وہ جماعت جو ہر بار کراچی کے حقوق کا علم اٹھاتی ہے، آخر میں ہمیشہ کسی وزارت، کسی کمیٹی، یا کسی ترمیمی لولی پاپ پر راضی ہو جاتی ہے۔ اور پھر اگلے سال، اگلے بجٹ، اگلے وعدے تک وہی کہانی، وہی فریب۔ جیسے کسی بیمار بچے کو بار بار میٹھا دے کر دوا ٹال دی جائے۔

یہ سیاست نہیں، یہ تسلسلِ مایوسی ہے۔ عوام دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، امید باندھتے ہیں، پھر دھوکا کھاتے ہیں۔ مگر عجب بات ہے کہ اگلے الیکشن میں پھر وہی چہرے، وہی وعدے، وہی نعرے — بس تاریخ بدل جاتی ہے۔ عوام کی یادداشت مختصر ہے، اور سیاستدانوں کا ضمیر طویل نیند میں۔

بلاول صاحب شاید کبھی کبھی سچ میں چاہتے ہوں کہ بی بی کے مشن کو آگے بڑھائیں۔ مگر ہر بار زرداری صاحب کا وہ پراگمیٹک، ٹھنڈا لہجہ ان کے جوش کو منجمد کر دیتا ہے۔ سیاست کے اس کھیل میں جذبات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہاں صرف اعداد، اتحاد، اور مفاہمت کے داؤ چلتے ہیں۔ عوام کا درد صرف تقریر کے دوران یاد آتا ہے، ووٹ کے دن بھلایا جاتا ہے۔

سچ کہیے تو ہماری سیاست اب جذبات اور طنز کے بیچ لٹکی ہوئی ہے۔ عوام کی آنکھوں میں آنسو ہیں، مگر سیاستدانوں کی زبان پر وعدے۔ اسمبلی کے اندر قہقہے گونجتے ہیں، مگر گلیوں میں خاموشی ہے۔ ہر رہنما اپنے منڈیٹ کو “اصلی” کہتا ہے، مگر عوام کے مینڈیٹ کو کوئی نہیں مانتا۔ یہی وہ “جعلی منڈیٹ” ہے جس کا ذکر مقرر نے کیا تھا — اور شاید یہی جملہ اس ساری تقریر کی روح ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہاں عوام کے نام پر سیاست تو بہت ہوتی ہے، مگر عوام کے لیے نہیں۔ یہاں “پاپولر پولیٹکس” صرف اسٹیج کی حد تک ہے۔ عوام کے حقوق اب نعروں کے نذرانے بن چکے ہیں۔ اقتدار کا دروازہ ہمیشہ بند دروازوں کے پیچھے کھلتا ہے — اور وہ دروازے عوام کے نہیں ہوتے۔

پھر بھی، ہر تقریر کے آخر میں ایک نظم سنانے کی بات ضرور ہوتی ہے — جیسے درد کو لفظوں میں قید کر لیا جائے تو بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ مگر بوجھ تو تب ہلکا ہوتا ہے جب نیت سچی ہو، جب وعدے پورے ہوں، جب ووٹ کی عزت ہو۔ نظمیں، تقریریں، ترمیمیں — سب خوبصورت دکھتی ہیں، مگر خالی پیٹوں کو سکون نہیں دیتیں۔

ہمارے ملک کی سیاست ایک مسلسل طنز ہے — عوام پر، اصولوں پر، اور خوابوں پر۔ اور ہم سب، اس طنز کے تماشائی ہیں۔ تالیاں بجاتے ہیں، ہنستے ہیں، مگر اندر سے جانتے ہیں کہ اگلی بار پھر یہی ہوگا۔
پھر ایک اور وعدہ، ایک اور لولی پاپ — اور ایک اور تقریر جس کے آخر میں کوئی کہے گا:
“بس دل کے اندر کچھ گلے شکوے تھے، وہ اتارنے آئے تھے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں