اسلام آباد: سینیٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پیش، اہم ترامیم پر بحث جاری
Salman Mukhtar
اسلام آباد: ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سید الناصر کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس جاری ہے، جس میں آج 27ویں آئینی ترمیم کا نیا مسودہ منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے والا 27واں آئینی ترمیمی بل سینیٹ کو موصول ہو گیا ہے۔ اس بل میں مجموعی طور پر 56 شقیں شامل ہیں، جب کہ سینیٹ میں ان میں سے آٹھ نکات پر منظوری کے لیے غور کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق ترمیمی بل میں کئی اہم دفعات میں تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کا تعلق عدلیہ، وفاقی آئینی عدالت اور آئینی عہدوں کے دائرہ کار سے ہے۔ قومی اسمبلی نے گزشتہ روز ترمیمی بل کو 234 ارکان کی حمایت سے منظور کیا تھا، جب کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اس بل کی مخالفت کی۔
آئینی ترامیم کی تفصیلات
27ویں آئینی ترمیم میں آئین کے متعدد آرٹیکلز میں رد و بدل کیا گیا ہے۔ ان میں آرٹیکل 255، آرٹیکل 214، آرٹیکل 168 کی شق دو اور آرٹیکل 42 شامل ہیں۔ تاہم ان شقوں میں کی جانے والی ابتدائی ترامیم کو حتمی مسودے سے حذف کر دیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی نے مزید ترامیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 6 کی شق (2اے) اور آرٹیکل 10 کی شق (2اے) میں اہم تبدیلیاں منظور کی ہیں۔ یہ ترامیم بنیادی آئینی حقوق اور ریاست کے خلاف غداری کے مقدمات کے قانونی ڈھانچے سے متعلق ہیں۔
اسی طرح آرٹیکل 176 اور آرٹیکل 260 میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی وضاحت کی گئی ہے اور وفاقی آئینی عدالت کو آئین کے دائرہ کار میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس اقدام کو ماہرین قانون ایک بڑی پیش رفت قرار دے رہے ہیں، جس سے مستقبل میں عدالتی نظام میں بہتری اور وضاحت پیدا ہونے کی توقع ہے۔
قومی اسمبلی کی ترامیم اور سینیٹ کا کردار
قومی اسمبلی نے اس بل میں سینیٹ سے منظور شدہ چار ترامیم کو مزید تین میں تبدیل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آرٹیکل 6 کی شق (2اے) میں ایک نئی ترمیم شامل کی گئی ہے، جس پر سینیٹ میں بھی حتمی منظوری کے لیے بحث جاری ہے۔
سینیٹ میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے چند شقوں پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ کچھ دفعات پر مزید مشاورت ضروری ہے تاکہ مستقبل میں کسی آئینی ابہام سے بچا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے بھی ان ترامیم کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور بیشتر نکات پر اتفاق رائے پیدا کیا گیا ہے۔ تاہم چند نکات پر اختلاف برقرار ہے، جن پر حتمی فیصلہ اجلاس کے دوران متوقع ہے۔
وفاقی کابینہ کا اجلاس اور آئندہ لائحہ عمل
27ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاقی حکومت نے قوانین میں تبدیلی کے لیے کابینہ کا خصوصی اجلاس آج دوپہر کو طلب کیا ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں آئینی ترامیم کی روشنی میں مختلف وفاقی قوانین اور عدالتی ڈھانچوں میں رد و بدل کی منظوری دی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق وزارت قانون و انصاف نے اس حوالے سے ابتدائی مسودے تیار کر لیے ہیں، جنہیں وزیر اعظم کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی ترامیم کا مقصد عدالتی اور آئینی نظام میں شفافیت، اختیارات کی وضاحت اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ ان ترامیم کے ذریعے آئینی عدالت کو باضابطہ طور پر آئین میں تسلیم کر لیا گیا ہے، جو مستقبل میں وفاقی نوعیت کے مقدمات میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
سیاسی ردعمل اور ماہرین کی رائے
سیاسی جماعتوں کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم پر ملے جلے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ حکومتی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم ملکی آئین کو مضبوط بنانے کی سمت ایک اہم قدم ہے، جس سے عدالتی ڈھانچے میں بہتری آئے گی۔
دوسری جانب اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت نے بل کی منظوری میں جلد بازی دکھائی ہے اور اسے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد پیش کیا جانا چاہیے تھا۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ترمیم میں چیف جسٹس کے عہدے اور وفاقی آئینی عدالت کے کردار سے متعلق وضاحتیں مستقبل کے آئینی بحرانوں سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہوں گی۔ تاہم وہ یہ بھی تجویز دیتے ہیں کہ اس کے نفاذ سے قبل مکمل قانونی مشاورت ضروری ہے تاکہ کسی قسم کا تضاد پیدا نہ ہو۔
نتیجہ
27ویں آئینی ترمیم پاکستان کے آئینی نظام میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ترمیم نہ صرف آئینی دفعات کی تشریح میں وضاحت پیدا کرے گی بلکہ عدالتی اور انتظامی اختیارات کے توازن کو بھی بہتر بنائے گی۔
اگرچہ کچھ حلقے اس میں موجود چند شقوں پر اختلاف رکھتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر ماہرین اسے ایک مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
سینیٹ میں اس کی منظوری کے بعد توقع ہے کہ وفاقی کابینہ متعلقہ قوانین میں فوری تبدیلیاں لائے گی، تاکہ آئین اور نظامِ حکومت کے درمیان مطابقت برقرار رکھی جا سکے۔