رپورٹ: فضہ حسین
امریکا میں موٹاپے اور مخصوص بیماریوں کے شکار افراد کے لیے ویزا پالیسی مزید سخت ہو گئی ہیں
امریکی محکمہ خارجہ نے دنیا بھر میں موجود اپنے سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو ایک نیا ہدایتی مراسلہ جاری کیا ہے، جس کے مطابق اب ایسے افراد جو موٹاپے، ذیابیطس، ذہنی یا جسمانی امراض میں مبتلا ہیں، ان کے لیے امریکا کا ویزا حاصل کرنا مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی حکومت کے اس خدشے کے پیشِ نظر کیا گیا ہے کہ ایسے افراد امریکا جا کر وہاں کی ہیلتھ کیئر سسٹم پر مالی بوجھ بن سکتے ہیں۔
مراسلے کے مطابق، “پبلک چارج رول” کے تحت امریکی ویزا افسران کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ درخواست دہندگان کی صحت، عمر، مالی حالت، اور مستقبل میں سرکاری مدد پر انحصار کے امکانات کا بغور جائزہ لیں۔ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ خدشہ ہو کہ وہ امریکا میں جا کر حکومتی وسائل یا ہیلتھ انشورنس پر بوجھ بن سکتا ہے، تو اس کا ویزا مسترد کیا جا سکتا ہے۔
یہ نئی پالیسی صرف موٹاپے یا ذیابیطس تک محدود نہیں بلکہ کینسر، دل کے امراض، اعصابی مسائل، اور دیگر سنگین طبی حالتوں والے افراد پر بھی لاگو ہو گی۔ اس کے تحت وہ تمام درخواست دہندگان جن کی صحت ایسی ہو کہ انہیں امریکا میں طویل مدتی علاج یا اسپتال کے اخراجات برداشت کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے، ان کے ویزا حاصل کرنے کے امکانات خاصے کم ہو جائیں گے۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ صحت کے مسائل رکھنے والے افراد کے علاج پر خطیر لاگت آتی ہے، جو بالآخر امریکی ٹیکس دہندگان پر بوجھ بن جاتی ہے۔ اسی خدشے کے باعث ٹرمپ انتظامیہ نے “پبلک چارج رول” کو ایک بار پھر فعال کر دیا ہے۔ اس رول کے تحت ایسے افراد جن کے امریکا آنے کے بعد “فلاحی منصوبوں، حکومتی امداد یا سرکاری طبی سہولیات” پر انحصار کا امکان ہو، انہیں ویزا دینے سے گریز کیا جائے گا۔
البتہ مراسلے میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ اگر کوئی درخواست گزار یہ ثبوت فراہم کر دے کہ وہ اپنے علاج یا علاج معالجے کے تمام اخراجات اپنی ذاتی مالی حیثیت سے ادا کر سکتا ہے، تو اس کی درخواست کو استثنا کے طور پر زیرِ غور لایا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص بیمہ (انشورنس) یا ذاتی آمدنی کی بنیاد پر یہ یقین دہانی کرا دے کہ وہ حکومت سے کوئی مدد نہیں لے گا، تو ویزا ملنے کا امکان باقی رہتا ہے۔
یہ فیصلہ امریکا میں پہلے سے موجود ہیلتھ کئیر اخراجات کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق، امریکا میں اس وقت تقریباً 10 کروڑ افراد موٹاپے کا شکار ہیں، جبکہ 3 کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد ذیابیطس جیسی طویل المدتی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ اعداد و شمار نہ صرف امریکا کی عوامی صحت کے لیے ایک چیلنج ہیں بلکہ اقتصادی نظام کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہیں، کیونکہ ان بیماریوں کے علاج پر ہر سال اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔
امریکی وزارتِ صحت کے مطابق، موٹاپے کے شکار افراد میں دل کے امراض، ہائی بلڈ پریشر، اسٹروک اور ذیابیطس کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت کا موقف ہے کہ ایسے افراد کو ویزا دینا دراصل مستقبل میں حکومت کے علاج معالجے کے بجٹ پر اضافی بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔
“پبلک چارج” قانون دراصل ایک پرانا اصول ہے جسے ماضی میں بھی امریکا نے مختلف اوقات میں استعمال کیا۔ اس کے تحت اگر کوئی غیر ملکی شخص امریکا میں داخلے کے بعد اپنی گزر بسر کے لیے حکومتی امداد پر انحصار کرنے لگے، تو اسے “پبلک چارج” یعنی حکومت پر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، موجودہ انتظامیہ نے اس قانون کو مزید سخت کرتے ہوئے اب صحت کے مسائل کو بھی اس کی بنیاد بنا دیا ہے۔
اس پالیسی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ انسانی ہمدردی کے اصولوں کے منافی ہے، کیونکہ بیماری ایک ایسا عنصر ہے جس پر کسی شخص کا اختیار نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق، اس فیصلے سے وہ افراد جو بہتر علاج یا زندگی کی بہتر سہولیات کے لیے امریکا جانا چاہتے ہیں، سخت متاثر ہوں گے۔
دوسری جانب، حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ امریکی مفاد کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ ان کے بقول، ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر صرف ان افراد کو داخلے کی اجازت دے جو مالی اور جسمانی طور پر خود مختار ہوں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا خود ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں موٹاپے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ امریکا میں ہر تیسرا بالغ شخص اوور ویٹ یا اوبیز ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کی ایک رپورٹ کے مطابق، موٹاپے کے باعث ہر سال لاکھوں امریکی دل کے دورے، شوگر اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
امریکی ماہرین کے مطابق، اگرچہ یہ پالیسی وقتی طور پر امیگریشن درخواستوں میں کمی لا سکتی ہے، لیکن طویل المدتی بنیادوں پر اس کے منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ دنیا بھر سے بہت سے قابل اور ہنر مند افراد جو معمولی طبی مسائل کا شکار ہیں، وہ بھی اب اس قانون کی زد میں آ جائیں گے۔
آخر میں مراسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی ویزا افسران ہر درخواست کو انفرادی بنیاد پر دیکھیں گے، اور اگر کسی شخص کی مجموعی مالی حالت مستحکم ہے یا اس کے پاس ہیلتھ انشورنس پلان موجود ہے، تو اس کی درخواست رد نہیں کی جائے گی۔ تاہم، عمومی طور پر صحت کے حوالے سے کمزور یا بیمار افراد کے لیے امریکا کا ویزا حاصل کرنا اب پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو جائے گا۔