رپورٹ فضہ حسین
ملک بھر کے صارفین کے لیے بجلی 65 پیسے فی یونٹ سستی ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے، جس سے گھریلو، کمرشل اور صنعتی شعبوں کو کچھ حد تک ریلیف ملنے کی امید کی جارہی ہے۔ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے ماہِ اکتوبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے تحت نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں باقاعدہ درخواست جمع کروادی ہے، جس میں بجلی کی قیمت 65 پیسے فی یونٹ کم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ نیپرا اس درخواست پر 27 نومبر کو عوامی سماعت کرے گا اور فیصلہ اسی سماعت کے بعد متوقع ہے۔
درخواست کے مطابق ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا اطلاق پورے ملک کے صارفین پر ہوگا، جبکہ کراچی کے صارفین بھی اس ریلیف کے اہل ہوں گے۔ اس وقت کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں ستمبر کی فیول ایڈجسٹمنٹ نافذ ہے جس کے تحت بجلی 48 پیسے فی یونٹ تک سستی کی گئی تھی۔ تاہم اکتوبر کے فیلڈ ڈیٹا، بجلی پیداواری لاگت اور درآمدی ایندھن کے اخراجات میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد مزید 65 پیسے فی یونٹ کمی کی گنجائش پیدا ہوئی ہے۔ پاور سیکٹر حکام کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر کوئلے، فرنس آئل اور ایل این جی کی قیمتوں میں معمولی اتار چڑھاؤ اور مقامی سطح پر پیداواری ذرائع کے بہتر استعمال سے فیول لاگت میں کمی آئی ہے، جس کا فائدہ صارفین تک منتقل کیا جارہا ہے۔
توانائی ماہرین کے مطابق اگر نیپرا درخواست منظور کرتا ہے تو مہنگائی کے ستائے عوام کے لیے یہ ایک چھوٹا مگر اہم ریلیف ہوگا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافے نے صارفین کی قوتِ خرید متاثر کر رکھی ہے۔ دوسری جانب بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ ایک عارضی ریلیف ہوتا ہے اور بجلی کی بنیادی قیمتیں بلند رہنے سے مجموعی اخراجات پر اس کا بڑا اثر نہیں پڑتا۔
ادھر پاکستان کے کاروباری حلقوں نے بجلی نرخوں اور پاور سیکٹر کے پالیسی ڈھانچے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے 2026ء کے لیے سی پی پی اے کی جانب سے تیار کیے گئے پاور پرچیز پرائس (PPP) کے پانچ مختلف منظرناموں کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے نیپرا کو خط لکھا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ آئندہ سال کی طلب اور لاگت سے متعلق پیش گوئیاں موجودہ معاشی حالات کے بالکل خلاف ہیں اور اگر انہیں بغیر نظرثانی نافذ کردیا گیا تو ملکی صنعت اور صارفین دونوں شدید مالی دباؤ کا شکار ہوجائیں گے۔
ایف پی سی سی آئی نے واضح کیا کہ پاکستان میں بجلی کی طلب مسلسل کم ہورہی ہے کیونکہ صنعتی پیداوار سکڑ رہی ہے، کئی فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں، جبکہ گھروں اور صنعتوں میں سولر سسٹم کی تنصیب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ صارفین مہنگی بجلی سے بچنے کے لیے کیپٹو پاور اور نیٹ میٹرنگ جیسے متبادل ذرائع اپنارہے ہیں، جس کے باعث بجلی کا مجموعی استعمال گر رہا ہے۔ خط کے مطابق اس صورتحال میں بجلی کی طلب میں اضافہ دکھانا زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا اور اگر غلط تخمینے کی بنیاد پر ٹیرف ڈھانچہ بنایا گیا تو صارفین کو اضافی سرچارجز، زیادہ صلاحیتی ادائیگیوں اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس کی صورت میں مزید مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔
ایف پی سی سی آئی نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ماضی میں بھی سی پی پی اے کے تخمینوں میں سولر ڈسپلیسمنٹ کو درست طور پر شامل نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کبھی منفی 1.80 روپے فی یونٹ تک گئی اور کبھی مثبت 0.50 روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی۔ جب طلب کم ہو اور بجلی کا استعمال کم ہوجائے تو مستقل صلاحیتی لاگت کم یونٹس پر تقسیم ہوتی ہے، جس سے بجلی مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔ اسی بنا پر کاروباری برادری نے خبردار کیا ہے کہ اگر مستقبل میں بھی سولر اور کیپٹو پاور کی تیز رفتار منتقلی کو نظر انداز کیا گیا تو پاور سیکٹر سرچارجز اور ایڈجسٹمنٹس میں غیرمعمولی اضافہ ہوگا۔
خط میں سی پی پی اے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بجلی کی مستقبل کی ضروریات کا تخمینہ زمینی حقائق کے مطابق لگائے، توانائی کے متبادل ذرائع کو حسابات میں شامل کرے، صنعتی پیداوار کی حقیقی صورتحال پر نظر رکھے اور پاور پرچیز معاہدوں میں اصلاحات لائے تاکہ صارفین پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔ ایف پی سی سی آئی نے یہ بھی کہا کہ پاور سیکٹر کی پالیسیوں میں بار بار تبدیلیوں اور غلط منصوبہ بندی کے باعث نہ صرف صنعتی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ قومی معیشت بھی سست روی کا شکار ہے