9

ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ: بلوچستان میں پانی کی سنگین قلت، صرف 7 فیصد زمین زیر کاشت رہ گئی

رپورٹ فضہ حسین
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ: بلوچستان میں پانی کی سنگین قلت، صرف 7 فیصد زمین زیر کاشت رہ گئی

ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) نے اپنی تازہ رپورٹ میں بلوچستان میں پانی کی شدید قلت، کم ہوتی ہوئی قابلِ کاشت زمین اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبے میں صرف 7 فیصد زمین زیرِ کاشت رہ گئی ہے، جو کہ زرعی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے صوبے میں ڈیجیٹل پانی و موسمی نظام قائم کیا گیا ہے، جس کا بنیادی مقصد پانی کے تحفظ، بہتر زرعی منصوبہ بندی اور موسمیاتی خطرات سے بروقت آگاہی فراہم کرنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں پانی کی کمی کئی دہائیوں سے ایک اہم مسئلہ رہی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں آبادی میں اضافہ، بارشوں میں کمی اور زیرِ زمین پانی کے بے تحاشا استعمال نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ بہت سے علاقوں میں ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیر زمین پانی نکالنے کی رفتار ریچارج کی شرح سے کئی گنا زیادہ ہوچکی ہے، جس کے نتیجے میں زرعی سرگرمیاں سمٹ کر انتہائی محدود رہ گئی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے بلوچستان میں ڈیجیٹل واٹر مینیجمنٹ سسٹم کا قیام ایک اہم پیش رفت ثابت ہوا ہے۔ صوبے کے مختلف علاقوں میں آٹو میٹک موسمیاتی اسٹیشنز (AWS) نصب کیے گئے ہیں جو بارش، درجہ حرارت، نمی، ہوا کی رفتار اور دیگر موسمی عناصر کا حقیقی وقت (Real-time) میں ڈیٹا فراہم کر رہے ہیں۔ یہ معلومات نہ صرف کسانوں کے لیے مؤثر رہنمائی فراہم کرتی ہیں بلکہ حکومتی محکموں کی منصوبہ بندی کو بھی بہتر بناتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کسان پہلے موسمی حالات کا درست اندازہ لگائے بغیر ہی آبپاشی کرتے تھے جس کی وجہ سے پانی کا بڑا حصہ ضائع ہوجاتا تھا۔ تاہم اب ڈیجیٹل نظام انہیں یہ بتاتا ہے کہ کس وقت کتنی مقدار میں پانی درکار ہوگا، جس سے پانی کے ضیاع میں نمایاں کمی اور زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جدید طریقہ کار سے کسان وہی پانی استعمال کر رہے ہیں جو فصل کی ضرورت ہو، یوں پانی کے ذخائر پر دباؤ کم ہورہا ہے۔

اے ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کا یہ ڈیجیٹل نظام صرف آبپاشی تک محدود نہیں بلکہ یہ سیلاب اور خشک سالی کے خدشات کی بروقت پیش گوئی بھی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وقت سے پہلے وارننگ ملنے سے متعلقہ محکمے تیار رہتے ہیں اور بڑے پیمانے پر نقصانات کو کم کیا جاسکا ہے۔ یہ سسٹم حکومتی اداروں کو ایسے فیصلے کرنے میں مدد دیتا ہے جو پانی کی منصفانہ تقسیم، ذخائر کی بہتر نگرانی، اور بحران کے دوران فوری ردعمل جیسے اقدامات میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں اس بات کابھی ذکر ہے کہ اس نظام نے مختلف محکموں کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی میں شاندار اضافہ کیا ہے۔ پہلے پانی، زراعت، موسمیات اور آبپاشی سے متعلق محکمے الگ الگ ورک کرتے تھے جس کی وجہ سے منصوبہ بندی میں خلا رہ جاتا تھا۔ اب تمام ادارے ایک ہی ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے منسلک ہیں جس سے معلومات کا تبادلہ تیز اور درست ہوگیا ہے۔

ایک اور نمایاں پیش رفت یہ ہے کہ مقامی افراد کو جدید سسٹمز کے استعمال میں خصوصی تربیت دی گئی ہے۔ تربیت کے بعد نہ صرف مقامی لوگ ان آلات کو خود چلا رہے ہیں بلکہ سسٹمز کی دیکھ بھال اور مرمت کی صلاحیت بھی حاصل کرچکے ہیں۔ اس سے منصوبہ مقامی سطح پر مضبوط اور پائیدار ہوگیا ہے، کیونکہ باہر سے تکنیکی ٹیموں کا انحصار کم ہوگیا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں پانی کی قلت کم کرنے کے لیے نئے ڈیمز اور نہری نظام کی تعمیر بھی جاری ہے۔ ان منصوبوں سے آبپاشی کے لیے پانی کی فراہمی پہلے کی نسبت بہتر ہوئی ہے۔ قدرتی بارش کے پانی کو محفوظ کرکے زرعی علاقوں تک پہنچانے سے نہ صرف پانی کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے بلکہ زراعت کے پھیلاؤ کے لیے بھی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔

رپورٹ میں شمسی توانائی سے چلنے والے ڈرِپ آبپاشی نظام کو بھی ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا ہے۔ اس نظام میں پانی براہِ راست پودوں کی جڑوں تک پہنچایا جاتا ہے، جس سے پچاس فیصد تک پانی کی بچت ہوتی ہے۔ شمسی توانائی کی بدولت کسانوں کو بجلی کی لاگت میں کمی کا فائدہ بھی مل رہا ہے۔ یہ ماڈرن ٹیکنالوجی پانی کے محدود ذخائر کے باوجود زراعت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

اے ڈی بی کے مطابق اگرچہ مسائل ابھی بھی موجود ہیں تاہم نئے ڈیجیٹل نظام، بہتر انفراسٹرکچر، جدید آبپاشی کے طریقوں اور محکموں کی ہم آہنگی سے بلوچستان میں پانی کے بحران کے حل کی جانب مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اگر ان منصوبوں کو اسی تسلسل کے ساتھ جاری رکھا گیا تو مستقبل میں صوبے کی زرعی پیداوار، پانی کے ذخائر اور موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت میں نمایاں بہتری آئے گی۔

آخر میں رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ بلوچستان جیسے خشک اور نیم صحرائی خطے میں پانی کا پائیدار استعمال اور جدید ٹیکنالوجی کا انضمام ہی مستقبل کی کامیابی کی واحد راستہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے منصوبوں کی سرپرستی جاری رکھے تاکہ نہ صرف موجودہ پانی کا بحران کم ہو بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی پانی کے وسائل محفوظ رہ سکیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں