رپورٹ ۔۔۔۔۔۔۔فضہ حسین
—
نیچے آپ کا مکمل 800 الفاظ کا پروفیشنل، خبری انداز میں تحریر کردہ متن پیش ہے۔ لفظوں کا مفہوم، قانونی نکات اور اصل خبر کی روح بالکل وہی رکھی گئی ہے، صرف انداز اور جملوں کی ساخت کو بہتر اور تفصیلی بنایا گیا ہے۔
—
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم اور دور رس اثرات رکھنے والے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کی دفعہ 7 کے مطابق تین طلاق سمیت کسی بھی صورت میں دی جانے والی طلاق اُس وقت تک نافذ العمل نہیں ہو سکتی جب تک مقررہ 90 دن کی مدت پوری نہ ہو جائے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس معاملے میں قانون کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ طلاق کا عمل صرف زبانی اعلان سے مکمل تصور نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے قانونی طور پر نوٹس کا اجرا اور اس کے بعد 90 دن کی مدت کا گزرنا لازم ہے، چاہے طلاق ایک ہو یا تین، یا کسی بھی شکل میں دی گئی ہو۔
یہ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے صادر کیا جس میں جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بھی شامل تھے۔ بینچ نے محمد حسن سلطان کی جانب سے دائر کی گئی طلاق سے متعلق پٹیشن کو نمٹاتے ہوئے نہ صرف طلاق کے قانونی طریقہ کار کی وضاحت کی بلکہ ایک اور اہم نکتے پر بھی رہنمائی فراہم کی کہ اگر شوہر نے نکاح نامے میں بیوی کو بلا شرط حقِ طلاق تفویض کیا ہو تو بیوی کو بھی طلاق واپس لینے کا پورا اختیار حاصل ہوتا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ نکاح نامے میں دیے گئے ایسے اختیارات محض رسمی نہیں ہوتے بلکہ قانونی طور پر مضبوط حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے جب شوہر نے بیوی کو غیر مشروط طور پر خود مختار طلاق کا حق دے دیا تھا تو وہ یہ اختیار استعمال کرکے نہ صرف طلاق کا نوٹس جاری کرسکتی تھی بلکہ ضرورت پڑنے پر اس کارروائی کو واپس بھی لے سکتی تھی۔
سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کے 7 اکتوبر 2024 کے فیصلے کو درسیتت قرار دے ہوئے اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ فریقین نے 2016 میں شادی کی تھی اور نکاح نامے کی شق نمبر 18 کے تحت شوہر نے بیوی، مورِیل شاہ، کو بلا شرط حقِ طلاق تفویض کیا تھا۔ یہ شق واضح طور پر بیوی کو خود طلاق دینے، نوٹس بھیجنے اور ضرورت پڑنے پر کارروائی واپس لینے کا مکمل اختیار دیتی ہے۔
ریکارڈ کے مطابق مورِیل شاہ نے 3 جولائی 2023 کو آرڈیننس کی دفعہ 7(1) کے تحت آرٹی بیٹریشن کونسل/یونین کونسل کو باضابطہ طلاق کا نوٹس بھجوایا تھا۔ لیکن 90 دن کی لازمی مدت مکمل ہونے سے پہلے، یعنی 10 اگست 2023 کو، انہوں نے یہ کارروائی واپس لینے کا تحریری طور پر فیصلہ کیا۔ قانون کے مطابق جب تک 90 دن مکمل نہ ہو جائیں، طلاق ایک زیرِ تکمیل عمل ہوتی ہے اور اسے واپس لیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ جب بیوی نے مقررہ مدت کے اندر اندر کارروائی واپس لے لی، تو یونین کونسل کے چیئرمین نے طلاق کی کارروائی ختم کرنے کا حکم جاری کیا، جو قانونی طور پر بالکل درست تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یونین کونسل کا یہ اقدام مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے عین مطابق تھا۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ دفعہ 7 کا مقصد صرف طلاق کا نوٹس دینا نہیں ہے بلکہ یہ ایک مفاہمتی مدت فراہم کرنا بھی ہے جس کے دوران دونوں فریقین کو صلح و گفتگو کا پورا موقع ملتا ہے۔ اس 90 دن کے عرصے کے بغیر طلاق کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔ عدالت نے کہا کہ یہ قانون خاندان کے استحکام، جلد بازی میں ہونے والی علیحدگیوں کی روک تھام اور دونوں فریقین کو سوچنے سمجھنے کا مناسب موقع دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ تین طلاق کا ایک ساتھ دیا جانا بھی اس قانونی عمل سے مستثنیٰ نہیں۔ اگر کوئی شوہر فوری طور پر تین طلاق بھی دے دے، تب بھی یہ طلاق 90 دن کی مدت اور قانونی طریقہ کار سے مشروط رہے گی۔ عدالت کے مطابق اس کا مطلب یہ نہیں کہ تین طلاق کو تسلیم نہیں کیا جا رہا، بلکہ یہ کہ ہر قسم کی طلاق قانون کے تحت طے شدہ طریقے کے مطابق ہی نافذ ہوسکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے یہ قانونی اصول مزید مضبوط ہوگیا کہ پاکستان میں طلاق کا نافذ ہونا ایک ‘پروسیجرل پروسیس’ ہے جس میں نوٹس، درمیان کا وقت اور ثالثی کونسل کا کردار سب لازمی ہیں۔ اس لیے کوئی بھی فریق محض ایک بیان کی بنیاد پر طلاق کو حتمی قرار نہیں دے سکتا۔
محمد حسن سلطان کی پٹیشن کے فیصلے نے ازدواجی تنازعات میں یکطرفہ دعووں کو محدود کر دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ نکاح نامے کی شقوں کی قانونی حیثیت نہایت اہم ہوتی ہے۔ بیوی کو دیا گیا حقِ طلاق صرف اختیار ہی نہیں بلکہ مکمل قانونی قوت رکھتا ہے، اور جب تک 90 دن کی مقررہ مدت پوری نہ ہو، کسی بھی قسم کی طلاق مؤثر حیثیت نہیں رکھتی۔