
:محمد ندیم قیصر (ملتان)
:تفصیلات
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں اکوڑہ خٹک کی معروف دینی درسگاہ مدرسہ دارالعلوم حقانیہ میں نماز جمعہ کے بعد ہونیوالے بم دھماکہ کی ذمہ داری ابھی تک کسی بھی شدت پسند تنظیم یا گروپ نے قبول نہیں کی ہے اس خودکش بم دھماکہ میں نامور مذہبی رہنما مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے و جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم سابق ممبر قومی اسمبلی مولانا حامد الحق خودکش بم دھماکہ میں دیگر 5 نمازیوں کے ہمراہ جاں بحق ہوئے تھے اور 12 شدید زخمی نمازی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ خودکش حملہ آور نے نماز جمعہ کے بعد ملاقاتی کے روپ میں مولانا عبدالحق سے گلے ملتے ہی بم کا بٹن دبا دیا تھا۔
نامور مذہبی رہنما و دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا حامد الحق کی عمر 57 برس تھی اور انہوں نے 7 برس قبل ان کے والد محترم و نامور عالم دین مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد جمعیت علمائے اسلام (س) کی قیادت سنبھالی تھی۔انہیں معروف دینی درسگاہ دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا نائب مہتمم بھی بنایا گیا تھا۔ مولانا سمیع الحق کو 2018ء میں ان کی رہائش گاہ پر قتل کردیا گیا تھا اس اندھے قتل کی اس واردات کا سراغ آج تک نہیں مل سکا۔
مولانا حامد الحق نے دینی و سیاسی تربیت اپنے والد محترم سے براہ راست پائی2002ء میں ایم این اے منتخب ہوئے۔ 1968ء میں خیبر پختونخوا کے نامور مذہبی رہنما مولانا سمیع الحق کے ہاں پیدا ہونیوالے مولانا حامد الحق کے دادا مولانا عبدالحق بھی ایک مذہبی اور عوامی شخصیت تھے اور دو بار ایم این اے بھی منتخب ہوئے ۔ مولانا حامد الحق نے اپنے آبائی شہر اکوڑہ خٹک ضلع نوشہرہ میں دینی تعلیم و تربیت کے علاوہ گریجوایشن کا امتحان بھی پاس کیا تھا۔ اور انہیں اپنے والد مولانا سمیع الحق کی زندگی میں ان کا جانشین سمجھا جاتا تھا اس لیے مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد انہیں اپنے والد کی جگہ جمعیت علمائے اسلام س کی قیادت سنبھالنے میں کسی حریف یا روکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ مولانا سمیع الحق کے بھائی مولانا انوار الحق کو مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا سربراہ مہتمم مقرر کیا گیا تو مولانا حامد الحق اپنے چچا کے نائب مہتمم بنادیئے گئے۔
سابق ایم این اے مولانا عبدالحق کے دادا دو بار ممبر قومی اسمبلی اور والد سمیع الحق ضیاء اور مشرف کے عسکری ادوار میں سینیٹر رہے۔
خود کش حملہ میں جاں بحق ہونیوالے مولانا حامد الحق کے دادا مولانا عبدالحق کا شمار اکوڑہ خٹک کے اہم سیاسی مذہبی شخصیات میں ہوتا تھا اور انہوں نے ضلع نوشہرہ کے قومی اسمبلی کے حلقہ سے دوبار عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی مولانا حامدالحق کے دادا مولانا عبدالحق 1977ء اور 1985ء کے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے ۔
مولانا حامدالحق کے والد مولانا سمیع الحق کو پہلی بار ذوالفقار بھٹو کی دور حکومت77ء کا تختہ الٹنے والے جنرل ضیاء الحق کے مارشلائی دور اور بعد میں نوزشریف حکومت 97ء کا تختہ الٹنے والے پرویز مشرف کے 99 ءکے دور حکومت میں سینیٹر منتخب کیا گیا اکوڑہ خٹک کی قومی اسمبلی کی نشست پر آخری بار مولانا عبدالحق 2002ء کے عام انتخابات میں منتخب ہوئے ا2002ء کے بعد قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن نہیں جیت سکا۔
ستاون (57) سالہ مولانا عبد الحق ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ابھر کر اس وقت سامنے آئے تھے کہ جب افغانستان پر امریکہ حملہ آور ہوا تھا اور پاکستان کی دینی جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا اور انہوں نے اپنے والد کی قیادت میں امریکہ مخالف تحریک میں فعال کردار ادا کیا تھا اور عوام سے براہ راست جڑے رہے اس لیے جب 2002ء میں پرویز مشرف نے عام انتخابات کروائے تو مولانا عبد الحق کو دینی جماعتوں کے الائنس متحدہ مجلس عمل سے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کا حقدار قرار دیا اور وہ ضلع نوشہرو میں اپنے آبائی علاقہ اکوڑہ خٹک سے ایم این اے منتخب ہو گئے اگرچہ بعد میں بھی انہوں نے عام انتخابات میں حصہ لیا مگر وہ دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں نہ پہنچ سکے لیکن ایک معتبر مذہبی رہنما کی حیثیت میں ان کے معتبر حوالہ کو ان کی آخری سانسوں تک تسلیم کیا گیا۔ افغانستان میں قائم طالبان حکومت کے ساتھ قریبی ذاتی مراسم کے باعث مولانا حامد الحق کو صوبائی حکومت کے مذاکراتی وفود میں بھی شامل کیا گیا۔
خودکش حملہ کی شکار اکوڑہ خٹک کی دینی درسگاہ مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کی قومی و عالمی سیاست میں سیاسی اہمیت بھی مسلمہ۔ “بابائے طالبان ” کے والد نے 47ء میں بنیاد رکھی۔
خودکش حملہ کی شکار اکوڑہ خٹک کی دینی درسگاہ مدرسہ دارالعلوم حقانیہ(مکتب دیوبند ) کی قومی و عالمی سیاست میں سیاسی اہمیت بھی مسلمہ ہے “بابائے طالبان ” مولانا سمیع الحق کے والد محترم مولانا عبدالحق نے قیام پاکستان کے ایک ماہ بعد ستمبر 1947ء میں مکتب دیوبند کے اس مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی۔اور اس مدرسہ سے فارغ التحصیل طلبا نے دینی خدمات میں ناموری کمائی۔
ستمبر 1947ء میں قائم کے گئے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل لاکھوں طلبا ء نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنا دینی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
پشاور سے اسلام آباد جاتے ہوئے اکوڑہ خٹک کے مقام پر قائم مدرسہ دارالعلوم حقانیہ نے افغانستان پر 1979ء میں روس اور 2002ء میں امریکہ کے حملہ کے بعد مؤثر مزاحمتی کردار ادا کیا ۔ مولانا سمیع الحق کی مذہبی شخصیت کا ایک اور اہم حوالہ “بابائے طالبان” کا بھی رہا اور وہ اس لیے کہ افغانستان سے روسی فوج کے انخلاء کے بعد جب 90ء کی دہائی میں افغانستان خانہ جنگی کا شکار تھا تو ایسے حالات میں ابھر کر آنیوالی نوجوان قیادت جس نے طالبان کی حیثیت سے پہچان پائی اس طالبان قیادت میں بیشتر مولانا سمیع الحق کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل تھے اس لیے جب بھی پاکستان یا کسی دوسرے ملک کو طالبان کے ساتھ کسی بھی مرحلہ پر مذکرات کی ضرورت پڑی تو مولانا سمیع الحق کو “بابائے طالبان ” کی حیثیت سے مذاکراتی وفود میں نمایاں مقام مرتبہ سونپا گیا۔
دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی دینی حیثیت کو خیبر پختونخوا میں بننے والی ہر حکومت نے تسلیم کیا اور بھاری فنڈز بھی دیئے لیکن تحریک انصاف کے ادوار میں جب مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کو کروڑوں روپے کے فنڈز دیئے گئے تو بانی پی ٹی آئی عمران خان کو “طالبان خان” کا طعنہ سہنا پڑاتھا۔
مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پر خودکش حملہ کے محرکات؟ کس کو ٹھیس پہنچی ؟
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی عالمی حیثیت کی حامل دینی درسگاہ دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پر خودکش حملہ نے دنیا بھر کے دینی حلقوں میں دکھ اور غم کی لہر دوڑ گئی ہے اور سب اس خودکش حملہ کے محرکات جاننا چاہتے ہیں۔مولانا حامد الحق کے جاں بحق ہونے کے المناک سانحہ نے ان کے والد محترم مولانا سمیع الحق کے اندھے قتل کے زخم کو بھی تازہ کردیا ہے اور یہ سوال بھی تقویت پا رہا ہے کہ کیا باپ کے بعد بیٹے کے حملہ آوروں کا پتہ چلنے کے بعد بھی ان کے نام اور محرکات کو منظر عام پر لایا جائے گا بھی مخفی رکھنے میں عافیت سمجھی جائے گی!۔
خودکش بمبار جو ملاقاتی کے روپ میں نماز جمعہ کے بعد مولانا حامدالحق کے مدرسہ سے گھر کو جانیوالے راستہ میں مسجد کی حدود میں ہی کھڑا تھا اس نے مولانا کو گلے لگاتے ہی بم کا بٹن دبا دیا۔
اس خودکش بمبار کا تعلق جس شدت پسند تنظیم سے جوڑا جا رہا ہے اس تنظیم نے تو مولانا حامدالحق کے جاں بحق ہونے کے المناک سانحہ پر افسوس اور غم و رنج کا تعزیتی پیغام بھی جاری کردیا ہے۔
مولانا حامدالحق شدت پسند تنظیم کی ریاست مخالف سرگرمیوں بارے تحفظات رکھتے تھے اور اس حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت کے اہم امن عامہ اجلاس میں انہوں نے شدت پسند افراد کو اپنی سرگرمیاں ترک کرنے بارے سرکاری اعلامیہ کی حمایت بھی کی تھی۔