
:محمد ندیم قیصر (ملتان)
: تفصیلات
عید الاضحیٰ کی آمد میں گھنٹوں کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو گیا، بیوپاریوں کے نخرے آسماں سے زمین پر آنے کا نام نہیں لے رہے۔ اور قربانی کے جانور کے نرخ کھاتے پیتے خوش حال گھرانوں کی مالی استطاعت سے بھی دور ہیں۔ عام وزن جسامت والے جانوروں کے بھاری بھرکم نرخ سن کر خریداروں نے کانوں کو ہاتھ لگا لیے۔دوسری جانب بظاہر صحتمند دکھائی دینے والے ایسے جانور بھی منڈیوں میں لائے گئے ہیں جو چلنے پھرنے میں لاغر دکھائی دے رہے ہیں۔ خریداروں نے جانوروں کے ویٹرنری ٹیسٹ کا بھی مطالبہ کر دیا۔قربانی کے جانوروں کیلئے مختص سرکاری منڈیوں میں داخلہ اور باہر لے جانے پر فیس پرچی پر بھی بھتہ خوری کی صدائے بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ سنت ابراہیمی کی پیروی کیلئے قربانی کے جانور خریدنے کیلئے پہلے بیوپاریوں سے مغز ماری کرنا پڑ رہی ہے تو پھر منڈی سے باہر جاتے ہوئے سرکاری فیس سے کئی گنا فیس وصولی پر بھی تلخی تو تکرار کے واقعات معمول بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری میز پر زائد فیس وصول کرنیوالوں کو کسی سرکاری کارروائی کا ڈر خوف بھی دکھائی نہیں دے رہا اور برملا کہہ رہے ہیں کہ شکایت سیل کے سرکاری نمبروں پر اپنا دکھڑا سنا دو ۔ ہم جواب دے لیں گے۔
عام سائز اور وزن کے بھیڈو بکرے کی بولی سوا سے ڈیڑھ لاکھ۔ بڑے جانور کا مول تول تین لاکھ سے شروع ۔
پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال مویشیوں کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ایک عام سائز اور وزن کے بھیڈو۔ بکرے کی بولی سوا سے ڈیڑھ لاکھ لگائی جا رہی ہے ۔ بڑے جانور کا مول تول تین لاکھ سے شروع ہو رہا ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں یہ نرخ کم و بیش 30 سے 40 فیصد تک زائد ہیں ۔ بیوپاری جانوروں کے ہوشربا نرخ کی ذمہ داری خود قبول کرنے پر تیار نہیں بلکہ وہ مہنگے جانوروں کی ذمہ داری سرکار پر ڈالتے ہوئے یہی مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ جانوروں کی خوراک کے نرخ بھی سال بھر کے دوران مسلسل بڑھتے رہے جب پالنے پوسنے کا خرچہ بڑھے گا تو ہم نے بھی نرخ بڑھانے ہیں ۔
مختلف شہروں سے قربانی کے جانور لانے والوں کا کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات اور لیبر چارجز سمیت آپریشنل لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔خریداروں کا شکوہ تھا کہ قیمت کا کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ ہر بیچنے والا اپنی مرضی کے مطابق قیمت مانگتا ہے، کچھ چھوٹے جانور کے لیے 10 لاکھ روپے تک مانگتے ہیں۔ حکومت چیک اینڈ بیلنس کا نظام نافذ کرے۔ محکمہ لائیو سٹاک کے پاس وسائل ہیں لیکن ان کی کارکردگی کہاں ہے؟ اگر محکمہ مقامی لائیو سٹاک فارمز کو ترقی دینے اور ڈیری فارمنگ کو سپورٹ اور سرمایہ کاری کرتا تو اس سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ ہر سال عید کے موقع پر سستی جانوروں کی دستیابی کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔ خریداروں نے پھولے پیٹ والے جانوروں کے ویٹرنری ٹیسٹ کا بھی مطالبہ کر دیا اور کہا کہ عوام کو کوئی ویٹرنری چیک اپ یا ریلیف فراہم نہیں کرتا۔ جانوروں کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے سائٹ پر کوئی ویٹرنری سٹاف موجود نہیں ہے۔