44

کے ہاسٹل میں ایک اور بڑا واقعہ BZU

کے ہاسٹل میں ایک اور بڑا واقعہ BZU

ملتان میں واقع بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے ایمپلائی اولڈ کیمپس کے ہاسٹل میں ایک نہایت افسوسناک اور سنجیدہ نوعیت کا واقعہ پیش آیا ہے جہاں ایک نوجوان طالبِ علم کی لاش اس کے کمرے کے قریب ہال سے برآمد ہوئی۔ واقعے نے نہ صرف جامعہ کے ماحول میں ہلچل پیدا کر دی ہے بلکہ طلبہ، اساتذہ اور یونیورسٹی انتظامیہ سب شدید صدمے اور تشویش کا شکار ہیں۔ ابھی تک اس واقعے کے محرکات مکمل طور پر واضح نہیں ہو سکے، تاہم مختلف ذرائع سے موصول معلومات اور ابتدائی بیانات میں چند ممکنہ اندازے بیان کیے جا رہے ہیں جن کی تحقیقات جاری ہیں۔

واقعے کے مطابق نوجوان کی لاش ہاسٹل کے اُس عمومی ہال سے ملی جہاں عام طور پر طلبہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ ابتدائی طور پر اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب اسی ہال کے قریب چند طلبہ نے غیر معمولی خاموشی اور کمرے کے اندر سے کوئی ردعمل نہ آنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان طلبہ نے جب دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو وہ بند پایا گیا، جس کے بعد صورتِ حال کو خطرناک سمجھتے ہوئے انہوں نے دیگر دوستوں کو بھی بلایا اور بعد ازاں دروازہ توڑنے کا فیصلہ کیا۔ جب دروازہ توڑا گیا تو سامنے ایک نہایت افسوسناک منظر تھا جسے دیکھ کر طلبہ صدمے میں آ گئے اور فوراً انتظامیہ کو اطلاع کی گئی۔

ابتدائی اطلاعات میں بتایا جا رہا ہے کہ واقعہ ممکنہ طور پر خودکشی کا ہے، تاہم یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ یا سرکاری بیان سامنے نہیں آیا۔ اس نوعیت کے واقعات کی تحقیق نہایت باریک بینی اور ذمہ داری سے کی جاتی ہے، اسی لیے انتظامیہ اور متعلقہ اداروں نے اس معاملے میں کسی بھی قسم کی جلد بازی سے گریز کا اعلان کیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور پولیس کو بھی تحقیقات کے لیے طلب کر لیا گیا ہے، جو موقع سے شواہد جمع کر رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق کچھ طلبہ اور واقفانِ حال یہ بھی بتا رہے ہیں کہ نوجوان کچھ عرصے سے ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ غیر مصدقہ بیانات میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے ذاتی اور گھریلو مسائل بڑھ چکے تھے اور وہ اپنی نجی زندگی کے بعض چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں کافی دباؤ محسوس کرتا تھا۔ کچھ طلبہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ تعلیمی اور عملی (کام سے متعلق) پریشانیوں میں مبتلا تھا، جو ممکنہ طور پر اس کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہو رہی تھیں۔

مزید برآں، کچھ غیر تصدیق شدہ اطلاعات میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ معاملہ کسی ذاتی نوعیت کے تعلق یا ممکنہ لو اسٹوری سے بھی جڑا ہو سکتا ہے، مگر اس حوالے سے کوئی ثبوت یا قابلِ اعتماد تفصیل سامنے نہیں آئی۔ اس لیے اس پہلو کو محض قیاس آرائی ہی سمجھا جا رہا ہے اور ذمہ دار حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ فالو اپ تحقیقات کے بغیر کسی بھی نتیجے پر پہنچنا درست نہیں۔ اس طرح کی غیر محتاط باتیں نہ صرف غلط فہمیاں پیدا کرتی ہیں بلکہ مرنے والے کے اہلِ خانہ کے لیے بھی تکلیف دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے یونیورسٹی انتظامیہ اور متعلقہ حکام نے عوام اور طلبہ سے اپیل کی ہے کہ سوشل میڈیا یا نجی محفلوں میں غیر مصدقہ باتیں پھیلانے سے گریز کیا جائے۔

واقعے کے بعد ہاسٹل میں خوف، دکھ اور خاموشی کی فضا ہے۔ طلبہ میں گہرے صدمے کے آثار نمایاں ہیں اور بہت سے طلبہ اس واقعے کو ذہنی صحت کے حوالے سے ایک شدید لمحۂ فکریہ قرار دے رہے ہیں۔ کئی طلبہ نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہاسٹل زندگی سے جڑے دباؤ، ذہنی تناؤ اور نجی مسائل سے متاثرہ طلبہ کے لیے عملی سطح پر کاؤنسلنگ سیشنز، ذہنی صحت سے متعلق ورکشاپس اور نفسیاتی مدد کے ذرائع کو مزید فعال کرے۔ جدید دنیا میں جامعات اس پہلو کو خصوصی اہمیت دیتی ہیں، کیوں کہ طلبہ اکثر گھریلو، معاشی، تعلیمی اور سماجی دباؤ کا سامنا کرتے ہیں اور بروقت مدد نہ ملنے پر مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

پولیس نے واقعے کے مقام سے ضروری شواہد اکٹھے کر لیے ہیں جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ مرنے والے کے اہلِ خانہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ان کی آمد کے بعد مزید قانونی کارروائی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہی اصل حقائق سامنے آئیں گے۔ اس وقت تک تمام بیانات کو محض ابتدائی کہا جا سکتا ہے، جبکہ حتمی وجہ کا تعین تحقیقاتی عمل مکمل ہونے کے بعد ہی ہو سکے گا۔

یہ واقعہ ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ذہنی صحت کو نظر انداز کرنا نہایت خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایسے واقعات ہمیں اس ذمہ داری کا احساس دلاتے ہیں کہ معاشرے، تعلیمی اداروں اور خاندانوں کو اس حوالے سے زیادہ حساس اور معاون ہونا چاہیے۔ کسی بھی انسان کی زندگی انتہائی قیمتی ہوتی ہے، اور کسی بھی قسم کی تکلیف یا تناؤ کا سامنا کرنے والے فرد کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ وہ اکیلا نہیں—اس کے مسائل، جذبات اور مشکلات قابلِ توجہ ہیں اور اس کے لیے عملی مدد دستیاب ہے۔

یونیورسٹی نے طلبہ کے لیے ہیلپ لائن نمبر بھی جاری کرنے کا عندیہ دیا ہے، جبکہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے بہتر رہائشی اور نفسیاتی سہولیات فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے۔

اس غمناک واقعے نے پورے ہاسٹل اور جامعہ کے ماحول کو متاثر کیا ہے۔ امید ہے کہ تحقیقات جلد مکمل ہوں گی اور اہلِ خانہ کو انصاف کے مطابق معلومات فراہم کی جائیں گی، ساتھ ہی یہ واقعہ پوری کمیونٹی کو ذہنی صحت، باہمی تعاون اور طلبہ کی فلاح کے حوالے سے نئے اقدامات کی طرف بھی متوجہ کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں