پاکستان آرمی کے سابق سینئر افسر لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے۔
یہ فیصلہ فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے 11 دسمبر 2025 کو جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق سامنے آیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی 12 اگست 2024 کو شروع ہوئی تھی جو تقریباً 15 ماہ تک جاری رہی۔ سابق جنرل پر چار سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے تھے، جن میں سیاسی سرگرمیوں میں مبینہ مداخلت، آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، ریاستی مفادات کو نقصان پہنچانے والے اقدامات، اختیارات کے غلط استعمال اور بعض افراد کو نقصان پہنچانے کے الزامات شامل تھے۔
فوجی عدالت کا کہنا ہے کہ کارروائی دوران تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے اور ملزم کو اپنی مرضی کی قانونی ٹیم کے ساتھ دفاع کا مکمل حق فراہم کیا گیا۔ فیصلے کے بعد انہیں متعلقہ فورمز پر اپیل کا حق بھی حاصل ہے۔
آئی ایس پی آر نے مزید بتایا کہ سزا سے ہٹ کر سیاسی حلقوں کے ساتھ مبینہ روابط اور دیگر معاملات سے متعلق تحقیقات بھی الگ طور پر جاری ہیں۔ یہ کیس پاکستان آرمی میں اعلیٰ سطح پر احتساب کی ایک اہم مثال قرار دیا جا رہا ہے۔
—
پس منظر اور نمایاں واقعات
عوامی منظرنامے پر ابھرنا
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پہلی بار 2017 کے فیض آباد دھرنے کے بعد نمایاں ہوئے، جب حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان ہونے والے معاہدے پر ان کا نام بحیثیت ضامن درج تھا۔ اس واقعے کے بعد ملکی سیاست میں ان کے کردار کے حوالے سے مختلف حلقوں میں مباحث کا آغاز ہوا۔
ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری
2019 میں انہوں نے پاکستان کی مرکزی خفیہ ایجنسی کی سربراہی سنبھالی، جہاں وہ دو سال سے زائد عرصہ تعینات رہے۔ اسی دوران ان پر سیاسی فیصلوں پر اثرانداز ہونے اور مختلف حکومتی معاملات میں مبینہ کردار کے حوالے سے اعتراضات سامنے آتے رہے۔
عدالتی فیصلوں میں ذکر
سپریم کورٹ کی جانب سے فیض آباد دھرنے کے فیصلے میں ایسے افسران کے خلاف کارروائی کی ہدایات شامل تھیں جن پر سیاسی عمل میں مداخلت کے الزامات تھے۔ اسی تناظر میں ان کے کردار پر مزید سوالات کھڑے ہوئے۔
تنقید اور الزامات
سابق وزیراعظم نواز شریف اور متعدد سیاسی شخصیات نے مختلف مواقع پر ان پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے۔ افغان دارالحکومت کے ایک ہوٹل میں ان کی کافی پیتے ہوئے تصاویر بھی میڈیا میں گردش کرتی رہیں، جس کے بعد خارجہ امور میں مبینہ مداخلت سے متعلق بحث تیز ہوئی۔
عدالتی و انتظامی کارروائیاں
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے بھی ان پر عدالتی کاموں میں مداخلت کا دعویٰ کیا تھا۔
نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے تنازع کے بعد ان کے خلاف باضابطہ تحقیقاتی عمل شروع ہوا، جس کے دوران 29 نومبر 2022 کو انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ اختیار کرلی۔
—
حراست اور مقدمے کی کارروائی
12 اگست 2024 کو انہیں فوج کی تحویل میں لیا گیا اور پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا آغاز ہوا۔ 10 دسمبر کو انہیں باقاعدہ چارج شیٹ کیا گیا، جس میں سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت، آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، ریاستی مفادات کو نقصان پہنچانے اور اختیارات کے غلط استعمال جیسے نکات شامل تھے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق 9 مئی کے واقعات اور ملک میں ہونے والی پرتشدد سرگرمیوں میں سیاسی عناصر کے ساتھ مبینہ روابط کی تحقیقات بھی اس کیس کا حصہ تھیں۔