نومبر ۲۰۲۵ کو پاکستان میں ہونے والے ضمنی انتخابات سیاسی سرگرمیوں کے لحاظ سے نہایت اہمیت کے حامل تھے۔ ان انتخابات میںقومیاسمبلی کی ۶ نشستوں اور پنجاب اسمبلی کی ۷ نشستوں پر ووٹنگ ہوئی۔ یہ نشستیں مختلف وجوہات کے باعث خالی ہو چکی تھیں جن میں نااہلیاں، استعفے اور دیگر قانونی عوامل شامل تھے۔ ان ضمنی انتخابات کو نہ صرف سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی سے لیا بلکہ عوام اور میڈیا کی نظریں بھی ان پر مرکوز رہیں، کیونکہ ان کے نتائج نے ملک کی موجودہ سیاسی فضا پر براہِ راست اثر ڈالا۔ مجموعی طور پر یہ انتخابات مسلم لیگ (ن) کے لیے خاصے حوصلہ افزا ثابت ہوئے، جبکہ پیپلز پارٹی نے ایک نشست حاصل کر کے اپنی موجودگی برقرار رکھی۔ آزاد امیدوار بعض حلقوں میں مضبوط دکھائی دیے لیکن کسی مقام پر حتمی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
پولنگ صبح آٹھ بجے شروع ہوئی اور شام پانچ بجے تک جاری رہی۔ سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔ ہزاروں سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے اور حساس حلقوں میں خصوصی نفری رکھی گئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ضابطۂ اخلاق پر مکمل عملدرآمد کے انتظامات کیے اور پولنگ اسٹیشنز پر سخت نگرانی قائم کی گئی۔ انتخابات مناسب امن و امان کے ساتھ مکمل ہوئے، اگرچہ بعض سیاسی جماعتوں خصوصاً تحریکِ انصاف نے انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات بھی لگائے۔
اب اگر ہم حلقہ وار صورتحال دیکھیں تو سب سے نمایاں کارکردگی مسلم لیگ (ن) نے دکھائی۔ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں وہ تقریباً تمام نشستوں پر کامیاب یا نمایاں برتری میں رہی۔ قومی اسمبلی کے اہم حلقوں میں سے ایک NA-143 ساہیوال ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار چوہدری محمد طفیل جٹ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح NA-129 لاہور، NA-96 فیصل آباد، NA-104 فیصل آباد اور NA-185 ڈیرہ غازی خان میں بھی ن لیگ نے مضبوط کارکردگی دکھائی اور اپنی پوزیشن مستحکم کی۔ ان حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو نہ صرف واضح ووٹ ملے بلکہ زیادہ تر حلقوں میں ان کے حریف خاصے پیچھے رہے۔ اس سے یہ تاثر تقویت پکڑتا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی گرفت ابھی بھی مضبوط ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ NA-18 ہری پور میں مقابلہ نسبتاً کانٹے دار رہا، جہاں آزاد یا پی ٹی آئی سے وابستہ امیدوار نے سخت مقابلہ پیش کیا۔ تاہم زیادہ تر رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے امیدوار نے یہاں بھی برتری حاصل کی۔ ہری پور چونکہ خیبر پختونخواہ کا حلقہ ہے، اس لیے یہاں مقابلے کا سیاسی انداز قدرے مختلف رہا، مگر نتیجہ بالآخر مسلم لیگ (ن) کے حق میں جھکا۔
پنجاب اسمبلی کی طرف آئیں تو وہاں بھی مسلم لیگ (ن) نے اپنی روایتی برتری برقرار رکھی۔ سات میں سے تقریباً چھ نشستیں ن لیگ کے امیدواروں نے جیت لیں یا ان میں غیر سرکاری نتائج کے مطابق وہ آگے رہے۔ ان حلقوں میں PP-73 سرگودھا، PP-87 میانوالی، PP-98، PP-115، PP-116 اور PP-203 ساہیوال شامل ہیں۔ ان تمام حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے واضح فرق سے کامیابی حاصل کی یا مضبوط لیڈ برقرار رکھی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پنجاب کی سطح پر مسلم لیگ (ن) کی تنظیم اور ووٹ بینک اب بھی فعال انداز میں موجود ہے۔
پنجاب اسمبلی کے سات حلقوں میں سے ایک اہم حلقہ PP-269 مظفرگڑھ ہے جہاں صورتحال برعکس رہی۔ یہاں سے پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی۔ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں ہمیشہ سے ایک حد تک سیاسی اثر رکھتی ہے اور اس نشست پر ان کی جیت اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ اس حلقے میں آزاد امیدوار بھی خاصے مضبوط رہے، مگر بالآخر فتح پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی۔ یہ واحد پنجاب اسمبلی کی نشست تھی جس پر PPP نے برتری حاصل کی اور اس نشست پر ن لیگ نے امیدوار بھی کھڑا نہیں کیا تھا، جس سے مقابلہ زیادہ تر آزاد اور پیپلز پارٹی کے درمیان رہا۔
آزاد امیدواروں کی بات کریں تو انہوں نے چند حلقوں میں قابلِ توجہ کارکردگی ضرور دکھائی، لیکن کوئی نشست جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مثال کے طور پر لاہور اور فیصل آباد کے بعض حلقوں میں آزاد امیدواروں نے ووٹ لے کر مقابلہ دلچسپ بنایا، مگر غیر سرکاری نتائج کے مطابق ان کی برتری کہیں بھی حتمی فتح تک نہ پہنچی۔ آزاد امیدواروں کو عموماً ایسے ضمنی انتخابات میں زیادہ مواقع ملتے ہیں جہاں بڑے سیاسی مخالف کمزور ہوں، مگر اس بار ن لیگ کی مضبوط مہم اور ووٹ بینک نے انہیں زیادہ کامیاب مواقع نہیں دیے۔
سیاسی جماعتوں کے ردعمل میں سب سے زیادہ آواز تحریک انصاف کی جانب سے آئی، جنہوں نے انتخابات میں بے ضابطگیوں، پولنگ…