رپورٹ۔۔۔۔ فضہ حسین
کاغان کے راستے خیبرپختونخواہ اور گلگت بلتستان کے درمیان سفر گرمیوں تک معطل
پاکستان کے مشہور اور نہایت مقبول سیاحتی مقام کاغان ویلی کے راستے خیبرپختونخواہ اور گلگت بلتستان کے درمیان سفر پر ضلعی انتظامیہ مانسہرہ نے اگلی گرمیوں تک مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی کا بنیادی مقصد مسافروں، سیاحوں اور ڈرائیوروں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے، کیونکہ شدید برفباری، یخ بستہ ہوائیں، درجۂ حرارت میں اچانک کمی، لینڈ سلائیڈنگ اور سڑکوں پر برف ج Jam جانے سے حادثات کے امکانات غیر معمولی حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں بظاہر محفوظ دکھائی دینے والی شاہراہ بھی مکمل طور پر غیر محفوظ ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں شہریوں کا روزانہ استعمال کیا جانے والا یہ اہم راستہ حفاظتی بنیادوں پر بند کیا گیا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر بالاکوٹ حضرت خان نے اس فیصلے کے حوالے سے میڈیا کو تفصیل سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وادی کاغان کے راستے گلگت بلتستان تک جانے والی مانسہرہ–ناران–جلکھڈ روڈ (MNJ) سردیوں میں انتہائی خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے، اسی لیے انتظامیہ نے بروقت قدم اٹھاتے ہوئے ہر قسم کی گاڑیوں اور مسافروں کی آمد و رفت روک دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ متعلقہ اداروں، ضلعی انتظامیہ، پولیس اور مقامی حکام کے ایک اہم اجلاس میں کیا گیا، جس میں موسمی صورتحال اور لوگوں کی حفاظت کے پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے ضلع چلاس کی انتظامیہ بھی پوری طرح اس فیصلے سے متفق ہے اور وہاں کی پولیس و حکام مسلسل مانسہرہ انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ دونوں جانب کے حکام نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا کہ سڑک کی صورتحال بہتر ہونے تک سفر مکمل طور پر روکا جائے، کیونکہ اس وقت راستے میں موجود برف کے تودے، خالی پہاڑی ڈھلوانیں، سخت برفیلی ہوائیں اور کم دکھائی دینے والی سڑکیں کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔
اسی دوران اے سی بالاکوٹ نے ایک اہم وضاحت بھی کی: انہوں نے کہا کہ سیاحوں کو ناران تک جانے کی اجازت تو ہے، لیکن ناران سے آگے کے علاقوں میں داخلہ محدود کر دیا گیا ہے۔ سیاح صرف صبح 11 بجے سے دوپہر 3 بجے کے دوران گاڑیوں میں چین والے ٹائروں کے ساتھ بٹھاکنڈی اور جھیل سیف الملوک تک جا سکیں گے۔ یہ وقت اس لیے منتخب کیا گیا ہے کہ اس دوران سورج کی حرارت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے اور راستہ مکمل طور پر برف میں نہ بدلنے کے باعث نسبتاً محفوظ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ شام کے وقت ٹمپریچر تیزی سے گرتا ہے اور سڑکیں شدید پھسلن کا شکار ہو جاتی ہیں۔
انتظامیہ کے مطابق ناران سے آگے کے علاقوں میں اس وقت بہت کم آبادی رہ گئی ہے۔ برفانی موسم شروع ہوتے ہی بٹھاکنڈی، براوائی، جلکھڈ اور دیگر بالائی مقامات میں رہنے والے مقامی لوگ ہر سال کی طرح سردیوں سے قبل ہی میدانی علاقوں کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جو چند خاندان ابھی باقی ہیں وہ بھی ایک ہفتے کے اندر یا پہلی برفباری کے بعد وادی چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان علاقوں میں قائم پولیس چوکیوں کو بھی موسمِ سرما کیلئے بند کردیا گیا ہے، تاکہ اہلکاروں کو شدید موسم کے خطرات سے بچایا جا سکے۔
اسسٹنٹ کمشنر نے مزید کہا کہ جب تک موسم بہتر نہیں ہوتا، وادی کے بالائی حصوں میں ہر طرح کی نقل و حرکت معطل رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں گاڑیوں کا ان علاقوں تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ روڈ پر کئی مقامات پر برف کے تودے گر سکتے ہیں، جبکہ پہاڑی چشموں کے جم جانے سے بھی راستے میں پھسلن بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو توقع ہے کہ بابوسر ٹاپ تک جانے والا راستہ اگلے سال مئی کے آغاز میں دوبارہ کھولا جا سکے گا، تاہم اس کے لیے موسم کا بہتر ہونا اور سڑک کی مکمل صفائی انتہائی ضروری ہے۔
انہوں نے سیاحوں اور مقامی افراد سے اپیل کی ہے کہ وہ ضلعی انتظامیہ کے فیصلے کی پابندی کریں اور اپنی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے شمالی علاقے خاص طور پر سردیوں میں نہایت دلکش ضرور ہوتے ہیں لیکن موسم کی شدت اور سڑکوں کی صورتحال کسی بھی وقت جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے، اس لیے انتظامیہ نے یہ قدم عوام کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھایا ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ جب تک سڑک بہتر نہیں ہو جاتی، سیاحوں کو متبادل روٹس استعمال کرنے کی تجویز دی جاتی ہے جبکہ وادی کاغان میں سردیوں میں محدود اور محتاط نقل و حرکت کی اجازت ہوگی۔ یہ پابندی عارضی ہے اور موسم بحال ہوتے ہی راستہ دوبارہ کھول دیا جائے گا