رپورٹ۔۔۔۔۔ فضہ حسین
“ٹرمپ کا سخت اعلان: امریکا میں پناہ گزینوں کے فیصلے غیر معینہ مدت تک معطل — ’ہم اِن لوگوں کو نہیں چاہتے
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر امیگریشن اور پناہ گزینوں کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ملک میں داخلے کے لیے پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں کی معطلی طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔ ان کے مطابق اس عمل کے دوبارہ شروع ہونے کے بارے میں کوئی حتمی وقت یا تاریخ نہیں دی جاسکتی، اور یہ پابندی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک حکومت کو اسے ختم کرنے میں فائدہ دکھائی نہ دے۔
ائیر فورس ون میں سفر کے دوران صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکا پہلے ہی اندرونی مسائل کا شکار ہے، اس لیے ملک مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسے افراد کو امریکا میں داخلے کی اجازت دینے کے حق میں نہیں جو اُن کے مطابق “مسائل کا پیکج” لے کر آتے ہیں۔ ٹرمپ نے انتہائی صاف الفاظ میں کہا کہ وہ پناہ کے نام پر امریکا آنے والوں کی بڑی تعداد کو ملک کے معاشی، معاشرتی اور سیکورٹی اندیشوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے کچھ ترقی پذیر ممالک بدعنوانی، پسماندگی اور سنگین جرائم سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایسے ممالک کے شہری اگر بہتر مستقبل کی تلاش میں امریکا آنا بھی چاہیں تو ان کی درخواستوں پر غور کرنے کے لیے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا وہ امریکا کے لیے بوجھ تو نہیں بنیں گے۔ ٹرمپ نے دلیل دی کہ جو ملک اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات، سلامتی یا روزگار نہیں دے سکتا، وہ امریکا پر یہ ذمہ داری نہیں ڈال سکتا کہ وہ اس کے شہریوں کو سنبھالے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ٹرمپ نے ترقی پذیر ممالک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ ماضی میں بھی کئی مرتبہ ایسے ہی مؤقف کا اظہار کر چکے ہیں، اور اکثر اپنے بیانات میں ایسے ممالک کی مثالیں دیتے ہیں جہاں نظام حکمرانی یا معاشرتی ماحول امریکی معیار سے بہت دور ہے۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے اپنے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ امریکا کو محض “بہتر زندگی” کے نام پر ہر اس شخص کو پناہ دینے کی ضرورت نہیں جو سرحد پار آتا ہے یا درخواست جمع کراتا ہے۔
گفتگو کے دوران ٹرمپ نے ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس الہان عمر پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی شخصیات امریکا میں پناہ گزینوں کے حوالے سے غیر حقیقت پسندانہ مؤقف رکھتی ہیں۔ الہان عمر دو دہائی قبل بطور پناہ گزین امریکا آئی تھیں اور آج امریکی کانگریس کی نمایاں رکن ہیں۔ ٹرمپ نے ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگ امریکا کے امیگریشن قوانین کو اپنی مرضی کے مطابق لچکدار بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہتر مستقبل کے نام پر بڑی تعداد میں لوگوں کو امریکا آنے کی اجازت دینے سے مسائل بڑھتے ہیں۔
ٹرمپ کے مطابق پناہ کے نظام کو محدود کرنا امریکا کے مفاد میں ہے، کیونکہ اس وقت ملک پہلے سے متعدد چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے جن میں معاشی دباؤ، سرحدی سیکیورٹی اور جرائم کی شرح میں اضافہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے عوام چاہتے ہیں کہ ملک میں داخلہ سخت اصولوں کے مطابق ہو، نہ کہ کھلی سرحدوں کی پالیسیوں کے تحت۔
پچھلے دو روز کے دوران حکومت نے پناہ گزینوں سے متعلق تمام فیصلے روکنے کا اعلان کیا تھا، جس نے ملک بھر میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ہزاروں افراد متاثر ہوں گے جو اپنی زندگیوں کو خطرات سے بچانے کے لیے پناہ کی درخواستیں دے رہے ہیں، جبکہ ٹرمپ کے حامی اس فیصلے کو امریکا کی “سلامتی اور ترجیحات” کے مطابق قرار دیتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ امریکا کو پہلے اپنے شہریوں کے مسائل حل کرنے ہیں۔ ان کے مطابق جب تک ملک معاشی اور سیکیورٹی اعتبار سے مکمل طور پر مستحکم نہیں ہو جاتا، اس وقت تک پناہ دینے کے فیصلے روکنا ضروری ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں امریکا زیادہ محفوظ ہو گا، اور غیر ضروری تارکین وطن کا بوجھ کم ہوگا۔
ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ پناہ کے نظام کو روک دینا امریکا کی انسانی حقوق کی پالیسیوں سے متصادم ہے، جبکہ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا نے ہمیشہ ضرورت مند لوگوں کی مدد کی ہے، مگر اب حالات ایسے ہیں کہ ہر درخواست گزار کو نہیں سنا جا سکتا۔
ٹرمپ کا یہ سخت بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا میں امیگریشن کا مسئلہ سیاسی بحث کا سب سے اہم حصہ بن چکا ہے۔ سیاسی مبصرین اس بیان کو ٹرمپ کے روایتی انتخابی بیانیے کی توسیع قرار دے رہے ہیں، جس میں وہ “امریکا کو محفوظ بنانے” کے نام پر سخت پابندیوں کی حمایت کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر ٹرمپ کا یہ اعلان ملک میں امیگریشن کے مستقبل پر ایک نئی لہر پیدا کر رہا ہے۔ اگر یہ معطلی واقعی غیر معینہ مدت تک برقرار رہی تو اس کے اثرات نہ صرف امریکا کے اندر بلکہ دنیا بھر میں محسوس کیے جائیں گے، خصوصاً اُن ممالک میں جہاں لوگ غربت، جنگ، بدامنی اور بےروزگاری سے بچنے کے لیے امریکا کا رخ کرتے ہیں۔