28

“چیف آف ڈیفنس فورسز کا اہم نیا ڈھانچہ تشکیل کے مراحل میں، نوٹیفکیشن جلدبازی میں نہیں ہوگا: وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ”

رپورٹ ۔۔۔۔۔۔فضہ حسین
“چیف آف ڈیفنس فورسز کا اہم نیا ڈھانچہ تشکیل کے مراحل میں، نوٹیفکیشن جلدبازی میں نہیں ہوگا: وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ”

وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے واضح کیا ہے کہ ملک میں چیف آف ڈیفنس فورسز (CDF) کے نام سے ایک انتہائی اہم ریاستی ادارہ قائم ہونے جا رہا ہے، جس کے حوالے سے قانونی، آئینی اور انتظامی پہلو انتہائی باریک بینی سے دیکھے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نیا ادارہ مستقبل میں قومی سلامتی اور دفاعی رابطہ کاری کے لئے مرکزی کردار ادا کرے گا، اسی لئے حکومت اسے جلد بازی کے بجائے پوری تیاری کے ساتھ تشکیل دینا چاہتی ہے۔

انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کی آئینی ذمہ داریوں میں عجلت مناسب نہیں ہوتی، کیونکہ آئین کی منظوری کے بعد متعلقہ قوانین مرتب ہوتے ہیں اور قوانین کے بعد قواعد و ضوابط ترتیب دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ہر مرحلے کو پوری احتیاط اور مکمل تیاری کے بعد آگے بڑھا رہی ہے۔ رانا ثناء اللہ کے مطابق وزیراعظم کی بیرونِ ملک سے واپسی کے فوراً بعد اس معاملے پر جتنا وقت ضروری ہوا، اتنا وقت دیا جائے گا اور پھر باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔

انہوں نے اس تاثر کو بھی یکسر مسترد کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اس نوٹیفکیشن میں کسی قسم کی رکاوٹ یا تاخیر کا باعث ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کبھی بھی چیف آف ڈیفنس فورسز کے قیام یا اس کی تشکیل کے حوالے سے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے کسی رکاوٹ کا تاثر ملے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ کچھ حلقے نواز شریف کے ایک بیان کو اس مسئلے کے ساتھ غلط طریقے سے جوڑ رہے ہیں، حالانکہ ان کی گفتگو کا پس منظر اور مقصد بالکل مختلف تھا۔

مشیرِ وزیراعظم نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ اداروں کی تشکیل، ان کے اختیارات اور ان کی مدتِ تعیناتی ہمیشہ آئینی ترامیم کے بعد ہی عملی شکل اختیار کرتے ہیں۔ موجودہ آئینی ترمیم کے مطابق، جب بھی سی ڈی ایف کا نوٹیفکیشن جاری ہوگا، اسی روز سے مدت کا تعین شروع ہوگا، اور وہ مدت پانچ سال ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نوٹیفکیشن سے پہلے جتنا بھی عمل زیر غور ہے، وہ محض تیاری کا حصہ ہے، فیصلہ اس وقت ہوگا جب حکومت تمام پہلوؤں کو مکمل طور پر چیک کر لے گی۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ مختلف حکومتی معاملات میں مختلف آپشنز پر مشاورت ہونا بالکل معمول کی بات ہے، لیکن کسی تجویز کا زیرِ غور ہونا فیصلہ ہونے کے مترادف نہیں ہوتا۔ حکومت کے اندر کئی نوعیت کی تجاویز پر غور ہوتا رہتا ہے، مگر حتمی فیصلہ ہمیشہ باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔ یہی عمل اس نئے ادارے کے قیام کے معاملے میں بھی جاری ہے۔

گفتگو کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کچھ سیاسی جماعتیں اس معاملے پر غیرضروری بحث چھیڑ کر غلط تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق حکومت اس عمل کو سیاست سے بالاتر رکھ کر قومی ضرورت کے مطابق آگے بڑھا رہی ہے، اور ملک کے وسیع تر مفاد میں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا جا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ تحریکِ انصاف کے ایک وفد نے حال ہی میں سپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کی تھی جس میں وہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومتی نمائندوں نے تحریکِ انصاف کے وفد سے کہا تھا کہ وزیراعظم کے واپس آنے کے بعد اس معاملے پر بات چیت ممکن ہوگی، مگر اس گفتگو کے فوراً بعد صوبائی سطح پر ایک ایسی دھمکی آمیز صورتحال سامنے آئی جس نے ماحول کو متاثر کیا۔ ان کے مطابق ایسے حالات میں مذاکرات کی اجازت دینا ممکن نہیں تھا، کیونکہ وہ لوگ پہلے بھی ایسی کارروائیاں کرتے رہے ہیں جو اعتماد کے ماحول کے خلاف ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سیاسی ماحول کو سازگار بنانے کے لئے کوشش کر رہی ہے، مگر ایسی صورتحال میں جہاں کوئی جماعت دھمکی آمیز رویہ اختیار کر لے، وہاں حکومت کو پوری احتیاط کے ساتھ قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی ملاقاتوں کا مقصد مسئلے کا حل ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی جماعت مذاکرات کے ساتھ ساتھ دباؤ کی سیاست بھی کرے تو پھر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریاستی امور کو خطرے میں نہ ڈالے۔

رانا ثناء اللہ نے ایک بار پھر زور دے کر کہا کہ چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن میں تاخیر کی جو کہانیاں بنائی جا رہی ہیں وہ محض مفروضے ہیں، نہ اس کے پیچھے کوئی سیاسی رکاوٹ ہے اور نہ ہی کوئی ذاتی اختلاف۔ حکومت کا واحد مقصد یہ ہے کہ جو بھی فیصلہ ہو، وہ آئین اور قانون کے دائرے میں مکمل تیاری کے ساتھ ہو، تاکہ آنے والے برسوں میں اس ادارے کا کام مؤثر اور متوازن انداز میں …

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں