36

“خلیجی ممالک کی دوغلی پالیسی—بھائی بھی کہتے ہیں، ویزا بھی روکتے ہیں”

رپورٹ ۔۔۔۔فضہ حسین
“خلیجی ممالک کی دوغلی پالیسی—بھائی بھی کہتے ہیں، ویزا بھی روکتے ہیں”
خلیجی ریاستوں کی جانب سے پاکستانی شہریوں کے ویزوں کی مبینہ بندش کا معاملہ اب ایوانِ بالا تک جا پہنچا ہے۔ پاکستان میں اس وقت ایک اہم اور سنجیدہ بحث جاری ہے کہ جب بھی خلیجی ممالک کو پاکستان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ ہمیں اپنا “قریبی بھائی” قرار دیتے ہیں، مگر جب بات پاکستانی عوام کو ویزا جاری کرنے کی آتی ہے تو صورتحال یکسر بدل جاتی ہے۔ یہی نقطہ سینیٹر دنیش کمار نے سینیٹ کے اجلاس میں انتہائی سخت الفاظ میں اٹھایا اور خلیجی ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں کی بندش تک کا مطالبہ کر دیا۔

پیر کے روز سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ متعدد خلیجی ریاستوں نے پاکستانی شہریوں کے ویزے تقریباً روک دیے ہیں، اور اب صورتحال یہ ہے کہ وہاں پاکستانی درخواست گزاروں کے تقریباً پچانوے فیصد ویزے بغیر وجہ بتائے مسترد کر دیے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ رویہ انتہائی افسوسناک اور دوہرے معیار کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ان ممالک کو اپنے دفاع، لیبر فورس یا دیگر معاملات میں پاکستان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ ہمیں دل سے اپنا ساتھی کہتے ہیں، مگر عام پاکستانیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ اس دوستی کی نفی کرتا ہے۔

سینیٹر نے مزید کہا کہ حیرت انگیز طور پر وہی ممالک بھارت کے شہریوں کو کھلے دل سے ویزے جاری کر رہے ہیں، لیکن پاکستانی باشندوں کو مسلسل رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ان کے بقول ہمارے سفارتی نمائندوں کو اس مسئلے پر فوری بنیادوں پر متحرک ہونا چاہیے تھا مگر صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر خلیجی ممالک پاکستانیوں کے لیے ویزوں کا اجرا دوبارہ بحال نہیں کرتے تو پاکستان کو بھی اپنا سخت ردعمل دکھانا چاہیے، اور بطور احتجاج ان ممالک میں موجود ہمارے سفارت خانے بند کرنے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ حال ہی میں وزارتِ داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری سلمان چوہدری نے سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ایک اجلاس میں تصدیق کی کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) عمومی پاکستانیوں کو ویزے جاری نہیں کر رہا۔ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستانی پاسپورٹ پر مکمل پابندی عائد کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے، مگر آخری لمحے پر فیصلہ مؤخر کر دیا گیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کبھی مکمل پابندی لگا دی گئی تو اس کے خاتمے تک پہنچنا پاکستان کے لیے نہایت مشکل ہوگا۔

وزارت داخلہ کے سینئر افسر نے بتایا کہ فی الوقت یو اے ای صرف بلو پاسپورٹ رکھنے والے یا سفارتی پاسپورٹ کے حامل افراد کو ویزے فراہم کر رہا ہے، جبکہ عام پاکستانیوں کی درخواستیں بڑی تعداد میں رد ہو رہی ہیں۔ ان کے مطابق پابندیوں کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ کچھ پاکستانی شہری ممالک جا کر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے، جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر پاکستان سے آنے والے افراد کے لیے سختیاں بڑھا دی گئیں۔

سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کی چیئرپرسن، سینیٹر سمینہ ممتاز زہری نے بھی وزارتِ داخلہ کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کمیٹی کی بریفنگ میں واضح طور پر بتایا گیا کہ یو اے ای نے پاکستانی شہریوں کو ویزے جاری کرنے کا عمل تقریباً روک دیا ہے۔ ان کے مطابق حالیہ مہینوں میں صرف چند مخصوص کیسز میں بڑی مشکل کے ساتھ ویزے جاری کیے گئے ہیں، اور یہ بھی فوری بنیاد پر نہیں بلکہ طویل جانچ پڑتال کے بعد۔

سمینہ ممتاز زہری نے کہا کہ اگرچہ حکومتی سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن خلیجی ممالک کا عمومی رویہ اب بھی سخت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی کو اس بات کا علم دیا گیا کہ بعض جرائم پیشہ گروہ پاکستانی شہریوں کی شناخت استعمال کر کے وہاں پہنچے اور بدنامی کا باعث بنے، جس کے بعد وہاں کی حکومتوں نے ویزوں پر سختی بڑھا دی۔

سینیٹر دنیش کمار نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ پاکستانیوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ “بھارتی شہریوں کی درخواستیں منظور کی جا سکتی ہیں، وہ روزگار کے مواقع پا سکتے ہیں، مگر پاکستانیوں کے لیے دروازے بند کیوں ہیں؟” انہوں نے سوال اٹھایا۔ ان کے مطابق اس رویے پر نہ صرف سفارتی سطح پر بات ہونی چاہیے بلکہ ایک واضح حکمت عملی بھی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات، لاکھوں پاکستانی ورکرز کی محنت، اربوں ڈالر کی ترسیلات زر اور دو طرفہ تعاون کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور پر یکطرفہ فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پاکستانیوں کے لیے ویزا پالیسی نرم نہیں کی جاتی تو پاکستان کو بھی اپنے مفاد میں سخت قدم اٹھانا پڑے گا۔

وفاقی وزارتِ داخلہ کے مطابق صورت حال پر مسلسل نظر رکھی جا رہی ہے اور خلیجی ممالک کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت جاری ہے، تاہم فوری تبدیلی کا امکان کم ہے۔ اس معاملے نے ملکی سطح پر ایک سنجیدہ بحث چھیڑ دی ہے کہ آخر وہ کون سے اقدامات ہیں جو پاکستان کو اٹھانے چاہئیں تاکہ اپنے شہریوں کے حقوق کا مؤثر طور پر دفاع کیا جا سکے۔

پاکستانی عوام اس فیصلے سے شدید مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ روزگار کے مواقع، کاروباری روابط اور خلیجی ممالک میں مقیم خاندانوں سے ملاقاتیں سب متاثر ہو رہی ہیں۔ عوامی سطح پر بھی مطالبات کیے جا رہے ہیں کہ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور موثر حکمت عملی تیار کرے۔

یہ مسئلہ اب صرف سفارتی نہیں رہا—بلکہ ایک قومی وقار، عوامی روزگار اور مستقبل کے تعلقات کا بھی سوال بن گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے حکومت کی حکمت عملی اور خلیجی ممالک کا ردعمل انتہائی اہمیت اختیار کرے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں