
:محمد ندیم قیصر (ملتان)
: تفصیلات
قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 26ـ2025ء کا 17 ہزار 573 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا،، اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد، افراط زر کی شرح 7.5 فیصد اور بجٹ خسارہ 3.9 فیصد متوقع ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد جبکہ پنشن میں 7 فیصد اضافہ کی تجویز ہے، ایف بی آر ٹیکس محصولات کا حجم 14 ہزار 131 ارب روپے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5 ہزار 147 ارب روپے مقرر کئے جانے کی تجویز ہے، تنخواہوں میں موجود تفاوت کو ختم کرتے ہوئے اہل ملازمین کو 30 فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الائونس دینے کی تجویز ہے جبکہ مسلح افواج کی ملک میں سیکورٹی کے خطرات کے دوران سرحدوں کے تحفظ کیلئے قابل تحسین خدمات کے اعتراف میں افسران اور سپاہیوں کیلئے سپیشل ریلیف الائونس دینے کی تجویز ہے۔ منگل کو وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کر دیا گیا۔منگل کو وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ ایک نہایت اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جا رہا ہے جب قوم نے حالیہ دنوں میں غیر معمولی اتحاد، عزم اور ہمت کا عملی مظاہرہ کیا ہے بھارتی جارحیت کے مقابل ہماری سیاسی قیادت افواج پاکستان اور غیور عوام نے جس جواں مردی، دانشمندی اور یکجہتی کا ثبوت دیا وہ تاریخ کے سنہری اوراق میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ کامیابی ایک شاندار عسکری کامیابی کے علاوہ پوری قوم کے اجتماعی شعور، قومی وقار اور غیرت کا مظہر تھی اس پر پا کستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری افواج نے اپنی پیشہ وارانہ مہارت، شجاعت اور جذبہ قربانی سے دشمن کو موثر اور بھرپور جواب دیا جس سے نہ صرف ہماری سرحدوں کا دفاع ناقابل تسخیر بنا بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کا وقار بھی بلند ہوا اس عظیم کامیابی نے یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم ہر آزمائش میں متحد اور مادر وطن کے دفاع کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔
جی ڈی پی کے 2.4 فیصد کے برابر پرائمری سرپلس کا حصول، افراط زر میں 4.7 فیصد تک نمایاں کمی۔
وزیر خزانہ نے گزشتہ سال معیشت کی بہتری کیلئے اٹھائے گئے اہم اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان اقدامات سے مالی نظم و ضبط میں نمایاں بہتری آئی ، جی ڈی پی کے 2.4 فیصد کے برابر پرائمری سرپلس کا حصول، افراط زر میں 4.7 فیصد تک نمایاں کمی، سرپلس کرنٹ اکائونٹ 1.5 ارب ڈالر تک ہونے کی امید، روپے کی قدر میں استحکام، ترسیلات زر میں 10 ماہ میں 31 فیصد اضافہ اور سٹیٹ بینک کے ذخائر میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ شامل ہے۔ رواں مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 38 ارب ڈالر جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اقتصادی بہتری کیلئے حکومت کو کئی سخت فیصلے لینے پڑے ، پاکستان کے غیور عوام نے بھی متعدد قربانیاں دیں جن کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مائیکرواکنامک استحکام پروگرام کی کامیابی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا اور عالمی ریٹنگ کی ایجنسیوں اور مالیاتی اداروں نے معیشت کی بہتری کی گواہی دی۔ کاروباری اداروں کے سربراہان کی معیشت میں بہتری پر اعتماد 83 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ فچ نے پاکستان کی ریٹنگ کو سی سی سی پلس سے بڑھا کر بی نیگیٹیو کرتے ہوئے معاشی بہتری کی تجویز دی ہے ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور آئی ایف سی نے نہ صرف پاکستان کی معیشت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے بلکہ پاکستان کیلئے خطیر فنانسنگ فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
حکومت نے مختلف شعبہ جات میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں ان میں ایف بی آر کی اصلاحات شامل ہیں۔ ہمارا سب سے اہم معاشی مسئلہ محصولات کے نظام کی خامیاں تھیں، ایف بی آر کو ٹرانسفارم کئے بغیر معیشت کو مستحکم کرنا اور قومی اہداف حاصل کرنا ممکن نہ تھا اس لئے وزیراعظم کی سربراہی میں ایف بی آر ٹرانسفارمیشن پلان کا آغاز کیا گیا ہے جس میں وزیراعظم کی زیر نگرانی تفصیلی مشاورت سے منصوبہ تیار کیا گیا جس کی ستمبر 2024ء میں منظوری دی گئی اس منصوبے کی بنیاد تین ستون پیپل، پراسیس اور ٹیکنالوجی پر رکھی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس منصوبے کا محور ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن ہے ۔پاکستان میں پہلی مرتبہ اس کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ڈیجیٹل پروڈیکشن ٹریکنگ کا آغاز کیا گیا جسے اب سیمنٹ، مشروبات، کھاد اور ٹیکسٹائل تک توسیع دی جا رہی ہے، ملک گیر سطح پر ای انوائسنگ کا اجراء اور جدید ٹیکنالوجی لانے کے مینڈیٹ کے ساتھ پی آر اے ایل بورڈ کی تشکیل نو ہو چکی ہے۔
چینی کے شعبہ سے محصولات میں 47 فیصد اضافہ ، 9 ارب 80 کروڑ روپے کے جعلی ریفنڈ کلیمز بلاک۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس منصوبے کے ابتدائی نتائج حوصلہ افزاء رہے ہیں، چینی کے شعبہ سے محصولات میں 47 فیصد اضافہ ہوا، 9 ارب 80 کروڑ روپے کے جعلی ریفنڈ کلیمز کو بلاک کیا گیا۔ اے آئی پر مبنی آڈٹ سسٹم کے تحت 13 ارب 30 کروڑ روپے سے زائد کے 200 کیسز کی نشاندہی کی گئی۔ فائلنگ اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ ہوا اور محاصل 45 ارب سے بڑھ کر 105 ارب روپے تک پہنچ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ یکم جولائی سے 800 کالم والا ریٹرن سادہ فارمیٹ میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ یہ آسان اور صارف دوست ریٹرن خاص طور پر تنخواہ دار اور چھوٹے کاروباروں کیلئے متعارف کرایا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے قوانین کے نفاذ کے ذریعے 389 ارب روپے کے محصولات کو باضابطہ تسلیم کیا ہے یہ غیر معمولی اعتراف ہمارے اصلاحاتی اقدامات کی طاقت، وسعت اور ساکھ کا واضح ثبوت ہے اور آئی ایم ایف کا پاکستان کی اصلاحات پر اعتماد کا مظہر ہے۔ وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ کوئی منی بجٹ آ رہا ہے اور نہ ہی کوئی اضافی ٹیکس لگایا گیا ہے۔ ایف بی آر نے حکومت کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے کامیاب مقدمہ بازی کے ذریعے 78 ارب روپے سے زائد کے محاصل وصول کئے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاور سیکٹر معاشی ترقی کیلئے اہمیت کا حامل ہے، ہم نے معاشی ترقی کے حصول اور ملک کی صنعت کیلئے بجلی کی اہمیت کے پیش نظر صنعتی شعبے کیلئے بجلی کی قیمت میں 31 فیصد سے زائد کمی کی ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی سے 3 ہزار ارب روپے سے زائد کی بچت ہو گی۔ ماحول کیلئے نقصان دہ 3 ہزار میگاواٹ سے زائد فرنس آئل پاور پلانٹس کو بند کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
گوجرانوالہ، فیصل آباد اور اسلام آباد کی تین ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کا آدھا کام مکمل ہو گیا ہے۔ این ٹی ڈی سی کی تنظیم نو کر کے اسے تین نئی کمپنیوں میں تقسیم کر دیا ہے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا انتظام پیشہ وارانہ بورڈز کے سپرد کر کے ان سے سیاسی مداخلت کو ختم کر دیا ہے جس سے ان کمپنیوں نے صرف 9 ماہ میں نقصانات میں 140 ارب روپے کی کمی کی ہے۔ اگلے پانچ سالوں میں کمپنیوں کے ان نقصانات کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ بجٹ کے شعبے میں مسابقتی اور آزاد مارکیٹ کے قیام کیلئے قانون سازی اور ضوابط کو حتمی شکل دیدی گئی ہے۔ اگلے تین ماہ میں اس پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار توانائی بچت کے حصول پر مبنی بلڈنگ کوڈز منظور کئے گئے ہیں، سستی بجلی کے حصول کیلئے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے، جس سے آنے والے دنوں میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہو گا، اس منصوبے کے تحت اب تک 4 ہزار ارب روپے سے زائد کی بچت کی ہے اور 9 ہزار میگاواٹ گنجائش کے مہنگے بجلی گھر جنہیں نیشنل گرڈ میں شامل کیا جانا تھا ترک کر دیا ہے۔
ریکوڈیک سے پورٹ قاسم اور گوادر تک سڑک اور ریل کے ذریعے نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان کے تیل اور گیس کے شعبے میں اصلاحات کی گئی ہیں جن سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریکوڈیک میں واقع تانبے اور سونے کی کانیں ہمارے مستقبل کا ایک اہم اثاثہ ہیں، حکومت اس اثاثے کو مفید بنانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے ،اس منصوبے کی فیزیبلٹی سٹڈی جنوری 2025ء میں مکمل کی گئی، کان کنی کی متوقع مدت 37 سال ہے جس دوران ملک کو 75 ارب ڈالر سے زائد کے کیش فلوز حاصل ہونگے۔ 41 ہزار 500 ملازمتیں فراہم ہونگی، منصوبے سے 7 ارب ڈالر کے ٹیکس اور 7 ارب 80 کروڑ ڈالر کی رائیلٹی متوقع ہے۔ برآمدات میں آسانی پیدا کرنے کیلئے ریکوڈیک سے پورٹ قاسم اور گوادر تک سڑک اور ریل کے ذریعے نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر جاری ہے یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت میں گیم چینجر ثابت ہو گا۔ ٹیرف اصلاحات کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت ساز گار کاروباری ماحول پیدا کرنے، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور برآمدات کو بڑھانے کیلئے پرعزم ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق چار سال میں اضافی کسٹم ڈیوٹی کے خاتمے، پانچ سال میں ریگولیٹری ڈیوٹیز کے خاتمے، کسٹم ایکٹ 1969ء کے پانچویں شیڈول کا پانچ سالوں میں اختتام، کل 4 کسٹمز ڈیوٹی سلیوز اور زیادہ سے زیادہ کسٹم ڈیوٹی کی حد 15 فیصد تک لانے کی ٹیرف اصلاحات کو قومی ٹیرف پالیسی 2025-30ء کا حصہ بنایا جا رہا ہے جنہیں مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے مطابق ان اصلاحات کے کامیاب نفاذ کے بعد پاکستان کے اوسط ٹیرف خطے میں سب سے کم ہو جائیں گے۔
پی آئی اے اور روزویلٹ ہوٹل، جینکوز اور ڈسکوز جیسے کلیدی اثاثوں کی نجکاری۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ فعال ری فنانسنگ پروگرام کے تحت مارک اپ میں ریکارڈ 850 ارب روپے سے زائد کی بچت کی گئی، قرضوں کی ایوریج ٹائم ٹو میچورٹی میں 66 فیصد اضافہ کیا گیا جس سے ری فنانسنگ رسک کم اور مالیاتی استحکام میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے پانڈا بانڈ کے اجراء کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے جس کا مقصد دنیا کی سب سے بڑی اور گہری چینی کیپٹل مارکیٹ تک پاکستان کی رسائی ممکن بنانا ہے۔ ایس او ایز اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایس او ایز حکومتی خزانے پر 800 ارب روپے سے زیادہ کا سالانہ بوجھ ڈالتی ہیں، اس میں سبسڈیز، گرانٹس اور ایکویٹی کی مد میں دی گئی حکومتی امداد کو شامل کیا جائے تو یہ تخمینہ ایک ٹریلین روپے سالانہ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ حکومت نے مستقبل میں نجکاری، تشکیل نو اور ٹرپل پی ماڈل کا تعین کیا ہے ، کابینہ کی ایک کمیٹی کے ذریعے اس کی درجہ بندی کو مکمل کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے، مالی بوجھ کو کم کرنے اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے حکومت ایک جدید اور متحرک نجکاری حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ یہ حکمت عملی غیر ضروری سرکاری اداروں کی شفاف اور موثر نجکاری پر مرکوز ہے تاکہ مختلف شعبوں، بالخصوص توانائی اور مالیاتی شعبے میں مسابقت، کارکردگی اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال 26-2025 میں ہمارا ہدف ہے کہ ہم پی آئی اے اور روزویلٹ ہوٹل، جینکوز اور ڈسکوز جیسے کلیدی اثاثوں کی نجکاری کے عمل کو مکمل کریں اور ٹرانزیکشن کیلئے پالیسی اور ضابطہ جاتی اصلاحات کو آگے بڑھائیں۔
شریک حیات کے انتقال کے بعد فیملی پنشن کی مدت 10 سال کرنے، ایک سے زائد پنشنز کا خاتمہ۔
پنشن اصلاحات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پنشن ریٹائرڈ ملازمین کا بنیادی حق ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں پنشن سکیم میں ایگزیکٹو آڈرز کے ذریعے تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھا۔ انہوں نے کہا کہ پنشن سکیم کو درست کرنے اور سرکاری خزانے پر بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومت نے پنشن سکیم میں اصلاحات کی ہیں جیسے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی حوصلہ شکنی، پنشن اضافہ، سی پی آئی سے منسلک ہے، شریک حیات کے انتقال کے بعد فیملی پنشن کی مدت 10 سال کرنے، ایک سے زائد پنشنز کا خاتمہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں پنشن یا تنخواہ میں سے کس ایک کا انتخاب شامل ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جدید آئیڈیاز کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کیلئے ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کاروباری معاملات میں حصہ نہ لے، نجی شعبہ اس سلسلے میں لیڈ کرے۔ اب تک کابینہ نے دس وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے جو اب عملدرآمد کے مرحلے میں ہیں، چھ ڈویژنز ضم کر کے تین بنا دی گئی ہیں۔ 45 کمپنیوں کو پرائیویٹائز، ضم یا بند کیا جا رہا ہے۔ تقریبا چالیس ہزار خالی آسامیوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اگلی دس وزارتوں کیلئے رائٹ سائزنگ کی سفارشات کو حتمی شکل دی جاچکی ہے جبکہ مزید آٹھ وزارتوں کے حوالے سے تجاویز زیر غور ہیں۔
وزیر خزانہ نے قومی اہمیت کے حامل اہم موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ہے اس کے منفی اثرات کا سدباب حکومت کی اہم ترجیحات میں سے ایک ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایف سی اپنے کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک کے تحت پاکستان کو اگلے دس سال میں چالیس ارب ڈالر کے وسائل مہیا کرینگے۔ ایک سال کی انتھک محنت کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کی ریزیلینس و سسٹین ایبلٹی فیلسٹی فراہم کی ہے، حکومت پاکستان نے پہلے گرین سکوک کا بھی اجراء کیا ہے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت سماجی تحفظ کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری حکومت ایک جامع اور موثر سماجی تحفظ کے نظام کے ذریعے معاشرے کے کمزور ترین طبقات کے تحفظ کے لیے پر عزم ہے۔ جاری مالی سال 25-2024 کے دوران، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نے کم آمدنی والے خاندانوں کو معاشی مشکلات سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 592 ارب روپے کے مختص فنڈز میں سے ایک کثیر رقم کے ذریعے 99 لاکھ مستحق خاندانوں کو غیر مشروط نقد امداد فراہم کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ایک کروڑ سولہ لاکھ بچوں کو تعلیمی وظائف کی صورت میں مالی معاونت فراہم کی گئی۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نشوونما پروگرام کے تحت 15 لاکھ حاملہ خواتین اور ان کے 16 لاکھ بچوں کو نقد امداد اور غذائیت پر مبنی خصوصی خوراک فراہم کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مالی شمولیت کے فروغ کیلئے سال بھر میں دو لاکھ پچاس ہزار (250,000) مستحقین کو فنانشل لٹریسی کی تربیت دی گئی۔
ڈیجیٹل گورننس اور سائبر سیکورٹی کے حوالے سے پاکستان کی خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئی ٹی کا شعبہ اپنی برآمدات کی صلاحیت کی وجہ سے ملکی معیشت کا ایک انتہائی اہم حصہ بن چکا ہے۔ ڈیجیٹل گورننس اور سائبر سیکورٹی کے حوالے سے پاکستان کی خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔ گلوبل سائبر سیکورٹی انڈیکس، ای گورنمنٹ انڈکس، آئی سی ٹی ڈویلپمنٹ انڈکس میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی رینکنگ ملک کے آئی ٹی شعبے کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں متاثر کن اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رواں مالی سال کے 10 ماہ میں یہ برآمدات 3 ارب 10 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جو پچھلے سال کی نسبت 21.2 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ نمایاں اضافہ حکومتی پالیسی کے نتیجے میں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال میں بھی اس شعبے میں ترقی کا سفر جاری رکھا جائے گا۔ اگلے 5 سالوں میں آئی سی ٹی برآمدات کو25 ارب ڈالر تک بڑھانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایم ایز ہماری معیشت کی خوشحالی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے ایس ایم ایز کے فروغ پر خصوصی توجہ دی ہے اس سلسلے میں وزیر اعظم نے ایک اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی ہے تاکہ تمام سرکاری اداروں کی مربوط کوششوں سے اس شعبے کو فروغ دیا جا سکے۔
ایس ایم ای فنانسنگ میں اضافہ، برآمدات کا فروغ، صنعتوں کے مابین روابط، خواتین کی کاروباری شراکت۔
سمیڈا نے 27-2024 کے لیے تین سالہ کاروباری منصوبہ تیار کیا ہے جس کے اہم اجزا میں ایس ایم ای فنانسنگ میں اضافہ، برآمدات کا فروغ، صنعتوں کے مابین روابط، خواتین کی کاروباری شراکت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے تحفظ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک بڑی کامیابی ایس ایم ای رسک کوریج سکیم ہے جس کے تحت مئی 2025 ء تک 95 ہزار سے زیادہ ایس ایم ایز کو 311 ارب روپے سے زائد کی مالی معاونت فراہم کی گئی۔ اس کے نتیجے میں کل ایس ایم ای فنانس 471 ارب روپے سے بڑھ کر 641 ارب روپے ہو گیا ہے جبکہ مستفید ہونے والے کاروباروں کی تعداد ایک لاکھ چوہتر ہزار سے بڑھ کر دولاکھ 62 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا عزم ہے کہ 2028 تک ایس ایم ای فنانس کو 1100 ارب روپے تک بڑھایا جائے اور مستفید کاروباروں کی تعداد سات لاکھ پچاس ہزار تک پہنچائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکوں، فین ٹیک اداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایس ایم ای فنانس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے سرگرم ہے اور حال ہی میں ایس ایم ای فنانس سے متعلق نظر ثانی شدہ ضوابط عوامی مشاورت کیلئے جاری کیے ہیں۔ ان ضوابط کا مقصد بینکوں کو زیادہ لچک دینا، قرضے کے حصول کا عمل آسان بنانا، ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا اور ضمانت کی شرائط کو نرم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان سماجی و اقتصادی ترقی کی سکیموں کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں جن کا عوام کی فلاح و بہبود پر گہرا اثر مرتب ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے کے کم آمدنی والے طبقے کو گھروں کی خرید یا تعمیر کے لیے سستے قرضوں کی فراہمی کی جائے گی۔ اس سکیم سے کئی شعبوں میں معاشی سرگرمیاں آگے بڑھیں گی اور ہنر مندوں کیلئے نئے روزگار پیدا ہوں گے۔ اس منصوبے کی تفصیلات کا اعلان جلد ہی اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے کیا جائے گا۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی اہم اثاثہ۔ترسیلات زر کے حجم میں 10 ارب ڈالر کا اضافہ۔
سمندر پار پاکستانیوں کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارا ایک اہم اثاثہ ہیں، ہمارے بیرون ملک مقیم بہن بھائیوں نے موجودہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں 31.2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھیجی ہیں جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 31 فیصد زیادہ ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں ترسیلات زر کے حجم میں 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جس کے لیے ہم اپنے بیرون ملک مقیم پاکستانی بہن بھائیوں کے تہ دل سے شکر گزار ہیں۔ توقع ہے کہ وہ ملکی ترقی میں اپنا فعال کردار ادا کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکائونٹ میں بہتری آئی ہے، ہماری حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کو مزید سہولیات دے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کے احکامات کی روشنی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے متعدد اقدامات کیے جارہے ہیں ان میں خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جانا ، مقدمات کی رجسٹریشن اور شواہد اکھٹا کرنے کے لیے آن لائن سسٹم متعارف کروانے اور جھوٹے مقدمات سے بچائو کیلئے متعلقہ ضابطہ دیوانی میں تبدیلی کی جائے گی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بچوں کے لیے وفاقی حکومت سے چارٹرڈ یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز میں کوٹہ متعین کیا جا رہا ہے اور سکل ٹریننگ کیلئے وظائف کی فراہمی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بنک کے ذریعے زیادہ ترسیلات بھیجنے والے 15 افراد کو ہر سال 14 اگست کو سول ایوارڈز دیئے جائیں گے۔
زرعی شعبے کو قرض کی فراہمی میں نمایاں اضافہ۔معیاری، موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق بیجوں کی فراہمی یقینی۔
زرعی شعبہ میں اٹھائے گئے اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، زراعت کا ملکی معیشت میں حصہ تقریبا 24 فیصد ہے جس سے ملکی معیشت کے لیے زراعت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ زراعت ایک صوبائی سبجیکٹ ہے مگر اس شعبے کی اہمیت کے پیش نظر وزیر اعظم نے ایک قومی کمیٹی تشکیل دی ہے جو زراعت کے فروغ کے لیے صوبوں کے ساتھ بامقصد مشاورت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے کو قرض کی فراہمی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہ رقم پچھلے مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں 1,785 ارب روپے سے بڑھ کر اس مالی سال کے پہلے دس ماہ میں 2,066 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ زراعت کے شعبہ خصوصاً چھوٹے کسانوں کو قرض کی فراہمی کے لیے کئی نئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ایک نیا کلین فنانسنگ فیسلٹی پروگرام شروع کیا جا رہا ہے جس کے تحت بنک چھوٹے کسانوں کو بغیر کسی ضمانت کے ایک لاکھ روپے تک کے قرضے فراہم کریں گے۔ یہ رقم ڈیجیٹل سسٹم کے ذریعے کسانوں کے ای والٹس میں ٹرانسفر کی جائے گی، چھوٹے کسانوں کو دیئے جانے والے قرضوں پر حکومت بنکوں کو پورٹ فولیو پر 10 فیصد نقصانات کے ازالے کے طور پر دیا جائے گا۔ یہ سہولت ایسے علاقوں میں فراہم کی جائے گی جہاں فنانسنگ کی سہولت میسر نہیں ہے۔ اس سکیم سے ساڑھے 7 لاکھ کسان فائدہ اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے بیج کے شعبے کی بہتری کیلئے اہم اقدامات کیے ہیں جن میں نیشنل سیڈ ڈویلپمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام شامل ہے تاکہ معیاری، موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق بیجوں کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے بیج کے نظام کو ڈیجیٹل بنیادوں پر منظم کرنے کا عمل شروع کیا ہے جس میں کمپنی رجسٹریشن، تجدید، بیج کی تصدیق، نگرانی اور نفاذ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نجی شعبے کی تحقیق اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ نیشنل سیڈ پالیسی 2025 اور نیشنل ایگریکلچرل بائیوٹیکنالوجی پالیسی 2025 منظوری کے آخری مراحل میں ہیں جبکہ پلانٹ بریڈرز رائٹس ایکٹ کو بھی ترجیح دی جا رہی ہے تاکہ اختراع کی حفاظت اور تحقیق و ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ کپاس کی فصل کی بحالی کیلئے بھی مربوط کوششیں کی گئی ہیں جو پاکستان کی معیشت اور ٹیکسٹائل صنعت کا ستون ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں کپاس کی پیداوار میں کمی ہوئی تاہم 2023 میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی اور 2024 میں حکومتی کوششوں کے باوجود موسمی مسائل کے باعث پیداوار متاثر ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ کپاس کی کاشت کے اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔
مالی سال 25-2024 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ۔اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان۔
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خصوصی اقتصادی سرمایہ کاری کونسل نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے فروغ اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ایک مرکزی پلیٹ فارم کے طور پر نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ اس کونسل کے تحت توانائی، معدنیات، زرعی کاروبار ، آئی ٹی ٹین ٹیک، انفراسٹر پھر افرادی قوت کی ترقی اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں میں 100 سے زائد اسٹریجک گرین فیلڈ اور بران فیلڈ منصوبوں کو تیز رفتاری سے آگے بڑھایا گیا، جس کے نتیجے میں مالی سال 25-2024 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پاٹنرشپ اور بھی شعبے کے فروغ میں بھی کونسل نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ بین الصوبائی اور بین الوزارتی روابط میں بہتری اور غیر ضروری ضابطہ جاتی رکاوٹوں کے خاتمے کے باعث ایس آئی ایف سی نے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا، نقل و حمل اور لاجسٹک کا نظام بہتر بنایا اور مالی سال 26-2025 کے لیے برآمدات پر مبنی صنعتی ترقی کے ایجنڈے کی مضبوط بنیاد رکھی۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ بجٹ مسابقتی معیشت کیلئے ترتیب دی گئی حکمت عملی کا آغاز ہے جس سے برآمدات میں اضافہ ہوگا، زرمبادلہ کے ذخائربڑھیں گے تاکہ ادائیگیوں میں عدم توازن سے بچا جاسکے اور ساتھ ہی ساتھ اقتصادی پیداواریت کو فروغ دیا جاسکے۔ بجٹ کی حکمت بنیادی تبدیلیاں لا کر معیشت کے ڈی این اے کو تبدیل کرنا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ مالی سال 26ـ2025 کے لیے اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ افراط زر کی اوسط شرح 7.5 فیصد متوقع ہے۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد جبکہ پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 2.4 فیصد ہوگا، ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ چودہ ہزار ایک سو اکتیس (14,131) ارب روپے ہے جو کہ رواں مالی سال سے 18.7 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ آٹھ ہزار دو سو چھ (8,206) ارب روپے ہوگا۔
وفاقی نان ٹیکس ریونیوکا ہدف پانچ ہزار ایک سو سینتالیس (5.147) ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، وفاقی حکومت کی خالص آمدنی گیارہ ہزار بہتر (11072) ارب روپے ہو گی۔وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ سترہ ہزار پانچ سو تہتر (17.573) ارب روپے ہے، جس میں سے آٹھ ہزار دو سو سات (8,207) ارب روپے سودکی ادائیگی کے لیے مختص ہوں گے۔ وفاقی حکومت کے جاریہ اخراجات کا تخمینہ سولہ ہزار دو سو چھیاسی (16,286) ارب روپے ہے۔وفاقی حکومت کے سرکاری ترقیاتی پروگرام کے لیے ایک ہزار (1,000) ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے
ملکی دفاع حکومت کی اہم ترین ترجیح۔دو ہزار پانچ سو پچاس (2,550) ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ ملکی دفاع حکومت کی اہم ترین ترجیح ہے اور اس قومی فرض کے لیے دو ہزار پانچ سو پچاس (2,550) ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔ سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے نو سو اکہتر (971) ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ پنشن کے اخراجات کے لیے ایک ہزار پچپن (1,055) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجلی اور دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار ایک سو چھیاسی (1,186) ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے،گرانٹس کی مد میں ایک ہزار نو سو اٹھائیس (1,928) ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں جو بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام ، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے بے ضم شدہ اضلاع وغیرہ کے لیے ہیں۔ کفالت پروگرام کو ایک کروڑ خاندانوں تک پہنچایا جائے گا۔ تعلیمی وظائف پروگرام کو مزید وسعت دی جائے گی تاکہ تقریبا ایک کروز میں لاکھ بچوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ اگلے مالی سال میں بی آئی ایس پی کے لیے سات سو سولہ (716) ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جو کے پچھلے سال کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے۔ جاریہ اخراجات سے آزاد جموں وکشمیر کے لیے 140 ارب روپے، گلگت بلتستان کے لیے 80 ارب روپے، خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے 80 ارب روپے اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ وفاقی ترقیاتی پروگرام ملکی اور بیرونی مالی وسائل کو متحرک کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے جس کا مقصد معیشت کے مختلف شعبوں میں ترقی کو فروغ دینا ہے۔
موجودہ مالی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، قومی اقتصادی کونسل نے مالی سال 2025ـ26 کے لیے چار ہزار دو سو چوبیس (4,224) ارب روپے کے قومی ترقیاتی اخراجات کی منظوری دیدی ہے جس میں ایک ہزار (1,000) ارب روپے وفاقی پی ایس ڈی پی ور دو ہزار آٹھ سو انہتر (2869) ارب روپے صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرامز کے علاوہ ایس اوایز کی اپنے وسائل سے تین سو پچپن (355) ارب روپے کی سرمایہ کاری شامل ہیں۔وزیرخزانہ نے کہاکہ وفاقی پی ایس ڈی پی 26ـ2025 کا محور بنیادی ڈھانچہ کے منصوبے ہیں، جن پر 60 فیصد سے زائد وسائل صرف کیے جا رہے ہیں تاکہ پورے ملک کو فائدہ پہنچے۔ جبکہ صوبائی اے ڈی پی۔ صوبائی پی ایس ڈی پی کی تربیج سماجی شعبے ہیں جن کے لیے 60 فیصد سے زائد رقوم مختص کی گئی ہیں۔ یہ رجحان آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ذمہ داریوں کی تقسیم پر عمل درآمد کا واضح ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ جاری اور نئے اقدامات کو قومی منصوبوں جیسے کہ اڑ ان پاکستان اور ایس ای ایس فائیوایز پر مبنی نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر سیکٹر (سڑکیں، ریلوے، سمندری اور ہوائی ٹرانسپورٹ) شامل ہیں۔ ٹرانسپورٹ کابنیادی ڈھانچہ معیشت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک کلیدی محرک کے طور پرفائیوایز فریم ورک کے تحت نمایاں شعبوں میں سے ایک ہے، تاکہ اڑان پاکستان اورہزاریہ ترقیاتی اہداف حاصل کیے جاسکیں۔ اس شعبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی 26ـ2025ء کے مجموعی ایک ہزار (1000) ارب روپے میں سے تین سو اٹھائیس (328) ارب روپے کے سب سے بھاری فنڈز ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے مختص کئے ہیں ۔
تھر کول ریل کنکٹویٹی پراجیکٹ کی بروقت تکمیل کے لیے سات (7) ارب روپے مختص۔
کراچی سے چمن جانے والی بلوچستان کی 813 کلومیٹر طویل شاہراہ جو کراچی، بیلہ، خضدار، قلات، کوئٹہ اور چین سے گزرتی ہوئی افغانستان تک جاتی ہے کی دو رو یہ تعمیر کے لیے ایک سو (100) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، شمال جنوب موٹروے نیٹ ورک کی تکمیل اور رابطہ کاری کی غرض سے چھ رویہ سکھر۔ حیدر آباد موٹروے کی تعمیر کے لیے پندرہ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ تھر کول ریل کنکٹویٹی پراجیکٹ کی بروقت تکمیل کے لیے سات (7) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ میری ٹائم کے شعبہ میں گڈانی شپ بریکنگ اپ گریڈیشن کے منصوبے کے لیے 1.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ گوادر پورٹ کے بنیادی ڈھانچہ منصوبوں کے لیے پی ایس ڈی پی سے معاونت کا تسلسل برقرار رکھا گیا ہے۔ صوبائی ٹرانسپورٹ منصوبوں کے لیے مالیاتی خلا کو پورا کرنے کے لیے بھی امداد جاری رکھی گئی ہے اور صوبائی منصوبوں کے لیے نمایاں فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔
پانی پاکستان کی بقا کا ضامن۔بھارت کے ناپاک عزائم کا بھر پور توڑ کیا جائے گا۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ حالیہ دنوں میں پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے پاکستان کے پانی کو روکنے کی دھمکی دی ہے۔ بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پانی پاکستان کی بقا کا ضامن ہے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس حوالے سے بھارت کے ناپاک عزائم کا بھر پور توڑ کیا جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہم اپنے آبی ذخائر میں جنگی بنیادوں پر اضافہ کریں۔ حکومت محدود وسائل کے باوجود پانی کے ذخائر کے منصوبوں پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔ جلد ہی اس حوالے سے ایک تفصیلی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت، فوڈ سیکورٹی، پہاڑی ندی نالوں سے آنے والے طغیانی ، ریلوں کی روک تھام، سیلاب کی روک تھام کے اقدامات اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان نے نیشنل واٹر پالیسی 2018 کے تحت جامع آبی وسائل کے نظم ونسق کے طریقہ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف اہداف مقرر کیے ہیں جن میں پانی ذخیرہ کرنے میں 10 ملین ایکٹر فٹ کا اضافہ، پانی کے ضیاع میں 33 فیصد کی کمی ، پانی کے استعمال میں کفایت میں 30 فیصد اضافہ اور سندھ طاس آبپاشی نظام کی مانیٹرنگ شامل ہیں۔
گزشتہ سال انسٹھ (59) آبی منصوبوں میں سے چونتیس (34) منصوبے مکمل کیے گئے جن کی مجموعی لاگت دوسو پچانوے (295) ارب روپے رہی۔ موجودہ مالی سال میں آبی وسائل ڈویژن کے لیے کل ایک سو تینتیس (133) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جن میں چونتیس (34) ارب جاری آبی منصوبوں میں مزید سرمایہ کاری کے لیے ایک سو دو (102) ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں سے پچانوے (95) ارب روپے پندرہ (15) اہم منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو پانی ذخیرہ کرنے، سیلاب سے تحفظ، انڈس بیسن پر ٹیلی میٹری سسٹم اور پانی کے تحفظ سے متعلق ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 32.7 ارب روپے، مہمند ڈیم کے لیے 35.7 ارب روپے، کراچی بلک واٹر سپلائی کے فور منصوبے کے لیے 3.2 ارب روپے، کلری باغار فیڈر کینال کی لائننگ کے لیے 10 ارب روپے، اور انڈس بیسن سٹم پر ٹیلی میٹری سسٹم کے لیے 4.4 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
پٹ فیڈر کینال کے لیے 1.8 ارب روپے اور کچھی کینال فلڈ ڈیمیجز پراجیکٹ کے لیے 69 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ آواران، پنجگور، گروک، اور گیشکور ڈیمز کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیرخزانہ نے کہاکہ کہ تمام شہریوں کو سستی اور قابلِ اعتماد انرجی کی فراہمی یقینی بنانا ہماری ترجیح ہے ، اس مقصد کے حصول کے لیے مالی سال 26ـ2025 کے ترقیاتی پروگرام میں توانائی کے شعبہ کی 47 ترقیاتی اسکیموں کے لیے 90.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیبجلی کے تقسیم کے نظام کو جدید بنانے کے لیے 100 اور 200 کے وی اے ٹرانسفارمرز کی تنصیب کے لیے ایسیٹ پرفارمنس منیجمنٹ سسٹم کے تحت 1.6ارب روپے جبکہ آئیسکو میں ایڈوانس میٹرنگ انفراسٹرکچر منصوبے کے لیے 2.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کو 1.8 ارب روپے، حیدر آباد الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 1.9 ارب روپے اور پشاور الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 2.4 ارب روپے دیے جائیں گے۔اس مختص رقم کا ایک بڑا حصہ بڑے پن بجلی منصوبوں سے بجلی کی ترسیل کے لیے مختص ہے،تربیلہ کے پانچویں توسیعی منصوبہ کیلئے 84 کروڑ روپے، داسو پن بجلی منصوبہ کے لیے 10.9 ارب روپے، سوکی کناری کے لیے 3.5 ارب روپے اور مہمند پن بجلی منصوبے کے لیے 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں،بجلی کی ترسیل کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے 500 کے وی مٹیاری موروـ رحیم یار خان ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لیے 1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نمایاں مختص رقوم میں 4.4 ارب روپے علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی گرڈ اسٹیشن کے لیے اور 1.1 ارب روپے قائد اعظم بزنس پارک کے 220 کے وی گرڈ سٹیشن کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
بجلی کے تقسیم کے نظام کو جدید بنانے کے لیے 100 اور 200 کے وی اے ٹرانسفارمرز کی تنصیب کے لیے ایسیٹ پرفارمنس منیجمنٹ سسٹم کے تحت 1.6ارب روپے جبکہ آئیسکو میں ایڈوانس میٹرنگ انفراسٹرکچر منصوبے کے لیے 2.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کو 1.8 ارب روپے، حیدر آباد الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 1.9 ارب روپے اور پشاور الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 2.4 ارب روپے دیے جائیں گے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ واپڈا کی جانب سے شروع کیے گئے صاف، قابل تجدید اور پن بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کے لیے 672 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کلیدی اقدامات میں 2,160 میگاواٹ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ شامل ہے جس کے لیے 20 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تربیلا پانچویں توسیعی منصوبہ کیلئے 35.7ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی توانائی کی ضروریات کومحسوس کرتے ہوئے ان علاقوں میں پن بجلی کی پانچ اسکیموں کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ان سکیموں میں ضلع نیلم آزاد جموں و کشمیر میں 48 میگاواٹ جاگران 11 اور 40 میگاواٹ ڈورایان ہائیڈرو پاور پرا جیکس شامل ہیں۔ ضلع گلگت میں 26 میگاواٹ لشکر جھنگ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سکردو، 16 میگاواٹنلتر، 111 اور 20 میگاواٹ جنرل ہائیڈرو پاور پرا نیجیکٹس شامل ہیں۔ گلگت بلتستان میں علاقائی گرڈ بنانے کے فیزون میں 1.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس کا مقصد چار اضلاع گلگت، ہنزہ نگر، سکردو اور استور میں بجلی کی طلب کو پورا کرتا ہے۔
سرسبز پاکستان۔جدید کاشتکاری کے طریقوں اور قابل کاشت زمین کو بڑھانے پر توجہ مرکوز۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت پاکستان زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے کوشاں ہے،شعبہ کی ترقی کے لیے مستعدی کے ساتھ کئی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن میں سرسبز پاکستان اقدام شامل ہے جس کے تحت جدید کاشتکاری کے طریقوں اور قابل کاشت زمین کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ دیگر اہم اقدامات میں پیداواری صلاحیت کو بڑھانے، پیداوار کے فرق کو پورا کرنے، فصلوں میں تنوع لانے اور کسانوں کی منڈیوں تک رسائی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے صلاحیت سازی، جینیٹک امپرومنٹ اورپوسٹ ہارویسٹ پرتوجہ دی جاری ہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ چین میں 1,000 زرعی گریجوئیٹس کی صلاحیت سازی کے لیے وزیر اعظم کے اقدام کے تحت مختلف صوبوں اور خطوں سے نوجوان پاکستانی زرعی گریجویٹس کو ایک مکمل فنڈڈ تربیتی پروگرام کے تحت چین بھیجا جا رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں 300 زرعی گریجوائیس کا بیچ جا چکا ہے اور مزید 300 زرعی گریجویٹس اس مہینے کے آخر تک چین پہنچ جائیں گے جہاں انہیں جدیدہنر اور بین الاقوامی آگاہی ملے گا۔اور ان کی صلاحیتوں کو زرعی شعبے کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ تربیتی پروگراموں کے علاوہ مالی سال 26ـ2025ء میں، کپاس اور لائیوسٹاک کی بحالی پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ، دس جاری اسکیموں کو جاری رکھنے اور پانچ نئے منصوبے شروع کرنے کے لیے 4 ارب روپے سے زائد مختص کیے گئے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ سب سے اہم شعبوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہی شعبہ تربیت یافتہ انسانی وسائل فراہم کرتا ہے جو عمومی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے علاوہ ملکی صنعت کی برآمدات میں اضافہ کے لیے بھی اہم ہے۔
اعلیٰ تعلیم کی مد میں ایچ ای سی کو 170 منصوبوں کے لیے 39.5 ارب روپے فراہم۔
اعلیٰ تعلیم کی مد میں ایچ ای سی کو 170 منصوبوں کے لیے 39.5 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ ان میں 38.5 ارب روپے جاری منصوبوں کے لیے ہیں۔ ان وسائل سے جاری اسکیموں کو مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم کی اسکیم کے تحت جسمانی مسائل سے دو چار نوجوانوں کو اپنی مشکلات پر قابو پانے کے لیے الیکٹرک وہیل چیئرز، خصوصی لیپ ٹاپس اور آڈیو ویژول ایڈز فراہم کی جائیں گی۔وزیرخزانہ نے کہاکہ علم پرمبنی اقتصادی نمو کو فروغ دیتے ہوئے اختراع، مسابقت اور انسانی وسائل کی ترقی کو بڑھانا ہے۔ یہ تمام مقاصد اڑان پاکستان اور نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان کے ای۔ پاکستان کے بنیادی عناصرمیں شامل ہیں۔ سائنس وٹیکنالوجی کے لیے مالی سال 26ـ2025ء میں 31 جاری اسکیموں کے لیے 4.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پی وی ماڈیولز کے لیے پاک۔ کوریا ٹیسٹنگ فسیلٹی کے قیام، سیمی کنڈکٹر چپ ڈیزائن فیسلیٹیشن سینٹر کی اپ گریڈیشن اور پرنٹڈڈ سرکٹ بورڈ کے لیے بائیوٹیک ڈیراویڈ بائیوپراڈکٹ ہاوسز کے قیام جیسی اہم جاری اسکیموں کو مکمل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔وزیرخزانہ نے کہاکہ تعلیم قومی ترقی کا سنگ بنیاد ہے اور حکومت آئین اوراڑان پاکستان پاکستان ایجوکیشن فریم ورک کے مطابق معیاری تعلیمی نظام کے قیام کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم میں مصمم ہے ۔ ملک کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں 26 ملین اسکول سے باہر بچے، تعلیم تک رسائی ، مساوات، گورننس اور تعلیمی معیار جیسے مسائل شامل ہیں۔ ان چیلنجوں سے نمٹنا انتہائی اہم ہے
گیارہ نئے دانش سکولوں کے قیام کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس میں تین آزاد جموں و کشمیر میں، تین گلگت بلتستا ن ، چار بلوچستان اور ایک اسلام آباد میں وفاقی پی ایس ڈی پی 26ـ2025ء کے تحت قائم کر ے کے لیے کل 9.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نے کم وسائل رکھنے والے والے طلبہ کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے دا نش یو نیورسٹی اسلام آباد کے قیام کا اعلان کیا ہے، جو دا نش اسکول منصوبہ کا تسلسل ہے۔ یہ یو نیورسٹی دور دراز علاقوں کے طلبہ کو خصوصاً ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز ، انجنئیرنگ ، تعلیم، صحت اور آئی ٹی کی بلا معاوضہ اعلیٰ تعلیم فراہم کرے گی ۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم پر مرکوز اضافی منصوبوں میں میں ارلی چائلڈ ہوڈایجوکیشن کے مراکز، کمپیوٹر لیبز اورنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایکسی لینس کا قیام شامل ہے۔ ان کا مقصد تعلیم تک رسائی کو بہتربنانا ، بچوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح کو کم کر نا، اور مجموعی تعلیمی معیار کو بڑھا ناہے۔ ان کاوشوں کے لیے وفاقی پی ایس ڈی پی میںمجموعی طور پر 18.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
سندھ میں 2022ء کے سیلاب سے متاثرہ موجودہ سکولوں کی تعمیر / تعمیر نو کے لیے وزیر اعظم کے پروگرام کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس میں ففٹی ففٹی کی بنیادپر وفاقی حکومت کی مسلسل حمایت کی عکاسی ہورہی ہے ، اس کے تحت 1.800 سکول یونٹس کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مزید برآں وزیر اعظم یوتھ سکل ڈویلپم ٹ پروگرام کے تحت 4.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت ایک لاکھ 61 ہزار 5 سو نوجوانوں کو کوسکلزٹریننگ فراہم کی جائے گی، جس میں 56ہزار کو آئی ٹی، 64ہزار کو صنعتی شعبہ جات اور 49 ہزار کو روایتی شعبوں میں تربیت دی جائے گی۔ ان میں سے اڑھائی ہزار نوجوانوں کا تعلق فاٹا کے ضم شدہ اضلاع سے ہوگا۔ شہری سندھکے علاقوں میں آٹھ نئے آئی ٹی تربیتی مراکز قائم کیے جائیں گے تاکہ مقامی اور بی الاقوامی سطح پر آئی ٹی گریجوئیٹس کے روزگارکے مواقع کو کو بہتربنایا جاسکے۔
صحت کے شعبے کے 21 اہم منصوبوں کے لیے 14.3 ارب روپے مختص۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ مالی سال 26ـ2025ء کے لیے، وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں صحت کے شعبے کے 21 اہم منصوبوں کے لیے 14.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں۔ ان منصوبوں کے تکمیل سے بیماریوں پر قابو پانے، صحت کی دیکھ بھال کو جدید بنانے، اور تمام شہریوں کوعلاج معالجے تک یکساں رسائی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ ان منصوبوں میں نمایاں جناح میڈیکل کمپلیکس اینڈ ریسرچ سینٹر، اسلام آباد کے لیے 4 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس رقم کا مقصد وفاقی دارالحکومت میں ایک فلیگ شپ ٹرشری کیئر اور t ٹیچنگ فیسیلیٹی کا قیام ہے۔ صحت کے سنگین چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم پروگرام کے تحت ہیپا ٹائٹس سی کے خاتمے کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس سے ملک گیر سکریننگ اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ اسی طرح متعدی امراض کی بڑھتی ہوئی لہر سے نمٹنے کے لیے شوگر کی روک تھام اور کنٹرول کے پروگرام کو 80 کروڑ فراہم کیے جائیں گے تاکہ صحت عامہ کے اس بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ حکومت نے اسلام آباد کے کینسر ہسپتال کے قیام کے لیے 1.7 ارب روپے اور ضروری آلات کی خریداری کے لیے 90 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔
پمز اسلام آباد میں ایک جدید ترین توسیعی سہولت اور کارڈ یک کئیر کے قیام اورسٹروک انٹروینشن سینٹر کے لیے 90 کروڑ مختص کیے جائیں گے تاکہ ہنگامی حالات میں اقدامات ور دل اور فالج کے مریضوں کے بچاؤ کو بہتر بنایا جا سکے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ پی ایس ڈی پی میں وسائل کی گنجائش کو سامنے رکھ کر وفاقی حکومت کو متوازن علاقائی ترقی کو یقینی بنانے اور ترقیاتی خلاء کو دور کرنے کے لیے آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے نئے خم شدہ اضلاع کی ترقیاتی ضروریات کا خیال رکھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں، وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈ ی پی میں کل 164 ارب روپے مختص کیے ہیں، جن میں سے آزادکشمیر کے لیے 48 ارب روپے، گلگت بلتستان کے لیے 48 ارب روپے اور خیبر پختو نخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے 68 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگراموں اور مختلف انفرادی منصوبوں کے لیے مختص کیے ہیں۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ فاقی حکومت آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور کے پی کے ضمشدہ اضلاع کے لیے سالانہ ترقیاتی پلان کی تشکیل کے لیے بلاک ایلوکیشن فراہم کرتی ہے۔ وفاقی حکومت نے آزاد جموں وکشمیر کے اے ڈی پی کے لیے 32 ارب روپے، گلگت بلتستان 22 ارب روپے اور ضم شدہ اضلاع اور سابق دس سالہ فاٹاپلان کے لیے 65 ارب روپے فراہم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت نے آزاد جموں و کشمیر کے لیے وزیر اعظم کے خصوصی پیکیج کے طور پر 5 ارب روپے اور گلگت بلتستان کے لیے وزیر اعظم کے خصوصی پیکیج کے لیے 4 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ یہ فنڈز مالی سال 26-2025 کے دوران متعلقہ حکومتوں کی طرف سے شناخت کئے جانیوالے ترجیحی اقدامات / منصوبوں پر استعمال کیے جائیں گے۔
ایک سال کے دوران ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب میں 1.6 فیصد تک کا اضافہ۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ 30 جون 2024 کو ایف بی آر کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب صرف 8.8 فیصد تھا۔ موجودہ حکومت کی کوششوں سے اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے، اس مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں ایف بی آر کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بڑھ کر 10.3 فیصد ہو گیا ہے اور توقع ہے کہ جون 2025ء کے آخر تک یہ مزید بڑھ کر 10.4 فیصد ہو جائے گا۔ وفاقی نان ٹیکس محصولات بھی گزشتہ سال کے 0.8 فیصد کے مقابلے میں بڑھ کر جی ڈی پی کا 12 فیصد ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر، وفاقی محصولات اب جی ڈی پی کا 11.6 فیصد ہیں اور اگر ہم صوبوں کے 0.7 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو شامل کریں تو رواں مالی سال کے اختتام تک قومی ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 12.3 فیصد ہو جائے گا۔ ایف بی آر کے ٹیکسوں میں ایک سال کے دوران ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب میں 1.6 فیصد تک کا اضافہ نہ صرف پاکستان کی تاریخ میں بے مثال ہے بلکہ حالیہ تاریخ میں دنیا کے دیگر حصوں میں بھی بہت کم دیکھا گیا ہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ انکم ٹیکس میں سب سے پہلے ہم اس جگہ ریلیف دے رہے ہیں جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وزیر اعظم کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ تنخواہ دار طبقے پرٹیکسوں کے بوجھ کو کم سے کم کیا جائے۔ اس حوالے سے تنخواہ دار لوگوں کے لیے آمدنی کے تمام سلیبس میں انکم ٹیکس کی شرحوں میں نمایاں کمی کی تجویز ہے۔ یہ ریلیف نہ صرف ٹیکس کے ڈھانچے کو آسان بنائے گا۔
چھ لاکھ روپے سے بارہ لاکھ روپے تک تنخواہ پانے والوں کے لئے ٹیکس کی شرح 5 فیصدسے کم کر کے صرف 2.5 فیصد کر دی گئی ہے۔ بارہ لاکھ آمدنی والے تنخواہ دار پر ٹیکس کی رقم کو 30 ہزار سے کم کر کے 6 ہزار کر دینے کی تجویز ہے۔ جو لوگ 22 لاکھ روپے تک تنخواہ لیتے ہیں ان کے لئے کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے 11 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح زیادہ تنخواہیں حاصل کرنے والوں کے لئے بھی ٹیکس کی شرح میں کمی کی تجویز دی جارہی ہے۔ بائیس لاکھ روپے سے بتیس لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کے لئے ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کر کے 23 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
برین ڈرین کو روکنے کے لئے ایک کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والے افراد پر عائد سر چارج میں 1 فیصد کمی کی تجویز۔
حکومت کو اس بات کا علم ہے کہ ملک کی بہترین پیشہ ور افرادی قوت کو اس خطے میں سب سے زیادہ ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ انتہائی باصلاحیت افراد ملک سے باہر منتقل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ملک سے برین ڈرین کو روکنے کے لئے ایک کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والے افراد پر عائد سر چارج میں 1 فیصد کمی کی تجویز ہے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر پر عائد ٹیکسوں کی شرح بلند سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اس وقت کارپوریشنوں پر عائد ٹیکس کی شرح پورے خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ حکومت کے پختہ عزم کے تحت ہدف پرمبنی ریلیف مہیا کرنے اور ایک متوازن اور معاشی ترقی کے لئے موزوں کارپوریٹ ٹیکس رجیم متعارف کرانے کے لیے یہ تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔ بیس کروڑ روپے سے پچاس کروڑ روپے تک سالانہ آمدنی حاصل کرنے والی کارپوریشنز کے لئے ٹیکس کی شرح میں 0.5 فیصد کی کمی تجویز کی جارہی ہے۔ یہ رعایت کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کے حکومتی ارادے کی عکاسی کرتی ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی معیشت میں تعمیرات کے شعبہ کا بہت اہم حصہ ہے۔ ہمارے بڑے پیمانے کی صنعتی پیداوار تعمیرات کے شعبے پر منحصر ہے۔ تاہم بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے اس شعبے کی اقتصادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 4 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد اور 3.5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد اور 3 فیصد سے کم کر کے 1.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
دس مرلے تک کے گھروں اور 20ہزار مربع فٹ تک کے فلیٹس پرٹیکس کریڈٹ متعارف۔
تعمیرات کے شعبے کے بوجھ کو مزید کم کرنے کے لیے کمرشل جائیدادوں، پلازوں اور گھروں کی منتقلی پر گذشتہ سال عائد کی جانے والی 7 فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے، کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے اور مورگیج کی حوصلہ افزائی کے لیے دس مرلے تک کے گھروں اور 20ہزار مربع فٹ تک کے فلیٹس پرٹیکس کریڈٹ متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت مورگیج فنانسنگ کوفروغ دے رہی ہے اور اس سلسلے میں ایک جامع نظام متعارف کرایا جائے گا۔ مزید برآں اسلام آباد کی حدود میں جائیداد کی خریداری پر سٹامپ پیپر ڈیوٹی 4 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد تک کرنے کی تجویز ہے تا کہ گھروں کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ ان اقدامات کی وجہ سے ہاوسنگ سیکٹر میں تیزی آئے گی اور یہ شعبہ معیشت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے گا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت ٹیکس کے نظام میں مساوات کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات متعارف کرا رہی ہے۔
انکم انٹرسٹ پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ تاہم چھوٹے پیمانے پر بچت کرنے والے اور اس آمدنی پر انحصار کرنے والوں پر اس شرح کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ یہ شرح قومی بچت کی سکیموں پر عائد نہیں ہو گی۔
آن لائن کاروبار اور ڈیجیٹل مارکیٹ پلیس کی تیزی سے ترقی کی وجہ سے اشیا کی قیمتوں میں ایسا بگاڑ پیدا ہو گیا ہے جس سے دستاویزی کاروبار کرنے والے ری ٹیلرز کو نقصان ہو رہا ہے ای کامرس پلیٹ فارمز اور کورئیر سروس مہیا کرنے والے، ڈیجیٹل طور پر منگوائی جانے والی اشیا اور خدمات پہنچانے پر ٹیکس کاٹیں گے۔ اس اقدام سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت محصولات میں اپنا حصہ شامل کرے۔ آن لائن مارکیٹ پلیس، کورئیر سروس اور ادائیگی میں معاونت کرنے والے اداروں پر لازم ہو گا کہ وہ ہرماہ اپنا ٹرانزیکشن ڈیٹا ور وصول کیے جانے والے ٹیکس کی رپورٹ جمع کرائیں۔ میوچل فنڈز پر حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کی تجویز ہے۔ اگر چہ حصص پر حاصل ہونے والے منافع کی شرح 15 فیصد رہے گی تاہم قرض کی بنیاد پر ہونے والی آمدنی پر اب 25 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے تاکہ حصص کی مارکیٹ میں میوچل فنڈز میں سرمایہ کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ اس تجویز کا مقصد یہ ہے کہ میوچل فنڈز اپنے وسائل کا رخ حصص کے کاروبار کی طرف موڑیں۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ کاروباری برادری کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ لوگوں پر ان کے ذرائع آمدنی کے بجائے صرف آمدنی کی بنیاد پر ٹیکس عائد کیا جائے۔ اس لئے صوبائی حکومتیں بھی زرعی آمدنی پر وفاقی انکم ٹیکس کی شرح پر ٹیکس وصول کر رہی ہیں اسی طرح سے 70 سال سے کم عمر وہ پنشنرز جو سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن وصول کر رہے ہیں ان کی ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن کی آمدنی پر 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے تاکہ ٹیکس کی بنیاد وسیع کی جا سکے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حکومت کم اور درمیانی پنشن وصول کرنے والوں پر ٹیکس عائد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ کیش لیس معیشتکو فروغ دینے کے لیے یہ ٹیکس اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔ نان فائلرز کے لیے نقد رقم نکلوانے پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 1 فیصد کرنے کی تجویز ہے تا کہ غیر دستاویزی نقد لین دین کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ جہاں کوئی ٹیکس دہندہ کسی ایک سیل انووائس پر دو لاکھ روپے سے زیادہ رقم نقد وصول کرے تو اس فروخت پر ہونے والے اخراجات کے 50 فیصد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس سلسلے میں اگلے مالی سال کے دوران مزید اقدامات لیے جائیں گے۔
انکم ٹیکس میں باقاعدگیوں کے خاتمے کیلئے ضروری اصلاحات۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ انکم ٹیکس میں باقاعدگیوں کے خاتمے کیلئے ضروری اصلاحات کی جا رہی ہیں، تجارتی جائیدادوں سے ہونے والی کرایہ کی آمدنی اب فیئر مارکیٹ ویلیو کے چار فیصد کی معیاری شرح کی بنیاد پر تسلیم کی جائے گی۔ اپیلیوں کا طریقہ کار بھی معقول بنایا جا رہا ہے۔ ٹیکس دہندگان اور ایف بی آر کے درمیان تنازعات کو کم کرنے کیلئے انکم ٹیکس کے ساتویں شیڈول کو بہتر بنانے کی تجویز ہے۔ توقع ہے کہ ان تبدیلیوں سے ٹیکس کا نظام منصفانہ اور مساویانہ ہو سکے گا۔ آن لائن ٹرانزیکشن اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع سے کی جانے والی ادائیگیوں کو بھی شامل کرنے کی تجویز ہے۔ ٹیکس چوری کے خاتمے کیلئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک نیا کلاسفیکشن سسٹم متعارف کرایا جا رہا ہے جس میں فائلر اور نان فائلرز کا فرق ختم کیا جا سکے، جو لوگ اپنے گوشوارے اور اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ جمع کروائیں گے صرف وہی بڑے مالیاتی لین دین کر سکیں گے۔ شیڈول بینکوں اور ایف بی آر کے درمیان بینکاری اور ٹیکس کے حوالے سے معلومات کے تبادلے کیلئے قوانین متعارف کرائے جا رہے ہیں، ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے اور اس کے نفاذ کو بہتر بنانے کیلئے بیرونی آڈیٹرز کی خدمات حاصل کر سکے۔
سولر پینل کی درآمدات پر 18 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد۔
سیلز ٹیکس ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ درآمد شدہ اور مقامی طور پر تیار کردہ سولرز پینلز کے درمیان مسابقت میں برابری کو یقینی بنانے کیلئے سولر پینل کی درآمدات پر 18 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کئے جانے کی تجویز ہے۔ پیٹرول یا ڈیزل استعمال کرنے والی اور ہائی بائیرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں یکسانیت لانے کیلئے 18 فیصد ٹیکس سے کم شرح والی گاڑیوں پر بھی 18 فیصد عمومی سیلز ٹیکس عائد کئے جانے کی تجویز ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے نئے ضم شدہ اضلاع کو 7 برسوں سے دی جانے والی ٹیکس چھوٹ سے نجات کیلئے آئندہ پانچ سالوں کے دوران مرحلہ وار سیلز ٹیکس نافذ کئے جانے کی تجویز ہے جس کا آغاز آئندہ مالی سال کیلئے 10 فیصد کی کم شرح سے کیا جائے گا۔ زرعی شعبہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق اس سال کھاد اور کیڑے مار ادویات پر مزید ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس چوری روکنے کیلئے سخت اقدامات متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ غیر رجسٹرڈ کاوباروں کیخلاف سخت سزائوں کو مزید بڑھانے کی تجویز ہے، جن میں بینک اکائونٹ منجمد کرنا، جائیداد کی منتقلی پر پابندی اور سنگین جرائم میں کاروباری جگہ کو سیل کرنا اور سامان ضبط کرنا شامل ہے۔ ان تمام اقدامات کو یقینی بنانے کیلئے تمام متعلقہ قانونی تقاضے پورے کئے جائیں گے۔
غیر ملکی تاجروں کو کی جانے والی ڈیجیٹل ادائیگیوں پر پانچ فیصد ٹیکس۔
ویب سائٹ اور سافٹ ویئر اپیلیکیشنز کے ذریعے آرڈر کی گئی اشیاء فروخت جا رہی ہیں جن ممالک کے ساتھ دو طرفہ ٹیکس معاہدہ نہیں ہے ان غیر ملکی ونڈرز پر ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر ٹیکس کے معاملات پر عالمی معاہدے کی فوری ضرورت ہے، ڈیجیٹل پریزننس پروسیڈٹیکس ایکٹ 2025ء کے تحت تمام ادارے بشمول بینک، مالیاتی ادارے ،لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیاں اور دیگر ادائیگی کے ذرائع اس بات کے پابند ہونگے کہ وہ پاکستان میں باہر سے اشیاء اور خدمات فراہم کرنے والے غیر ملکی تاجروں کو کی جانے والی ڈیجیٹل ادائیگیوں پر پانچ فیصد ٹیکس وصول کریں۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ایکٹ میں ترامیم کی تجویز دی گئی ہے۔ کسٹمز اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اشیاء کی آمد سے قبل ہی کلیئرنس کو فروغ دینے ، بندرگاہوں پر کلیئرنس میں لگنے والے وقت اور مقدمات میں کمی لانے کیلئے قانونی ترامیم کی جا رہی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے نہ صرف طریقہ کار کی اصلاحات کر رہے ہیں بلکہ اپنے ریاستی معاشی معاہدوں کی بنیادوں کی بھی ازسرنو تشکیل کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسا مضبوط ڈیجیٹل طور پر مربوط اور نفاذ پر مبنی ٹیکس نظام مرتب کر رہے ہیں جو قانون کی پاسداری کو فروغ دے، ٹیکس چوری کے راستے بند کرے اور ہماری اقتصادی خود مختاری کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اصلاحات آسان نہیں بلکہ نہایت ضروری ہیں۔ ہم ایک ایسے ٹیکس نظام کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو منصفانہ، شفاف اور پاکستان کے عوام کیلئے قابل اعتماد ہوں ہم اپنے اس مقصد میں نہایت واضع اور پرامن ہیں۔
الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے نئی انرجی وہیکل پالیسی تیار۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ فوسل فیول کے زیادہ استعمال کی حوصلہ شکنی اور موسمیاتی تبدیلی اور گرین انرجی پروگرام کیلئے مالی وسائل مہیا کرنے کیلئے یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ مالی سال 26ـ2025ء کیلئے پیٹرول، ہائی سپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل پر 2.5 روپے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی عائد کی جائے جو مالی سال 2026-27ء میں بڑھا کر 5 روپے فی لیٹر کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ فرنس آئل پر پیٹرولیم لیوی بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ شرح کے مطابق عائد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے توانائی کے شعبہ پر ناقابل برداشت گردشی قرضوں کا بوجھ ہے جو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 2 ہزار 393 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اس گردشی قرضے پر کیبور کے علاوہ دو فیصد سے 5.4 فیصد تک مالیاتی چارجز عائد ہوتے ہیں اور مالی سال 2025ء میں اس کی متوقع لاگت 454 ارب روپے تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ وفاقی حکومت کا ارادہ ہے کہ موجودہ مہنگے قرضوں کی ری فنانسنگ، سستے اور شریعت کے مطابق بینک فنانسنگ کے ذریعے کی جائے۔ اس منصوبے کو عملی جامع پہنانے کیلئے نیپرا ایکٹ میں ترمیم تجویز کی جا رہی ہے جس سے وفاقی حکومت کو ڈی ایس ایس پر 10 فیصد سرچارج ادا کرنے کی پابندی کو کیس ٹو کیس بنیاد پر مخصوص مدت اور مقصد کیلئے بڑھانے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 2 اور تین پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے حکومت پاکستان نے نئی انرجی وہیکل پالیسی تیار کی ہے تاکہ ہمارے ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکے۔
گریڈ ایک سے 22 کے تمام ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز۔
بجٹ میں ریلیف اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس میں کمی کے ساتھ ساتھ حکومت نے اپنی مالی مشکلات کے باوجود سرکاری ملازمین کیلئے ریلیف اقدامات کا فیصلہ کیا ہے گریڈ ایک سے 22 کے تمام ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز ہے، معذور ملازمین کیلئے خصوصی کنونس الائونس کو 4 ہزار سے بڑھا کر 6 ہزار ماہانہ کیا جا رہا ہے، آئین پاکستان میں مساوی حقوق سے متعلق دی گئی شق پر عملدرآمد کرتے ہوئے تنخواہوں میں موجود تفاوت کو ختم کیا جا رہا ہے اہل ملازمین کو 30 فیصد کی شرح سے ڈسپیرٹی ریڈکشن الائونس دینے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال خطرات سے دوچار ہے اور مسلح افواج نے سرحدوں کے تحفظ کیلئے قابل تحسین خدمات انجام دی ہیں، ان خدمات کے اعتراف میں مسلح افواج کے افسران اور سولجرز/جے سی اوز کیلئے سپیشل ریلیف الائونس دینے کی تجویز ہے، یہ اخراجات دفاعی بجٹ سے پورے کئے جائیں گے۔ وزیر خزانہ نے وزیراعظم ، نائب وزیراعظم، کابینہ، حکومتی اتحادی جماعتوں اور دونوں ایوانوں کے اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مسلسل تعاون، رہنمائی اور اعتماد نے ہمیں قومی ترقی کے اس مشکل مگر ضروری سفر پر گامزن رکھا۔ خزانہ ڈویژن اور اس کے ذیلی اداروں، پلاننگ ڈویژن، وزارت قانون اور دیگر اداروں کا بھی بجٹ تیاری میں کلیدی کردار پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بجٹ محض ایک مالیاتی دستاویز نہیں بلکہ ہماری قومی ترجیات، اجتماعی وژن اور عوام سے کئے گئے وعدوں کا آئینہ دار ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں جس طرح دشمن کی جارحیت کیخلاف ہم نے یکجہتی، جرات اور قومی عزم کا مظاہرہ کیا وہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے، اسی جذبے کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم نے معاشی استحکام، اصلاحات اور پائیدار ترقی کی راہ اپنائی ہے، آج پاکستان ایک نیا سفر شروع کر رہا ہے جو ہر فرد، ہر طبقے اور ہر خطے کو ترقی کے ثمرات پہنچانے کا عزم رکھتا ہے۔ انہوں نے قومی مفاد میں مشکل فیصلوں میں حکومت کا بھرپور ساتھ دینے پر اتحادی جماعتوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہی وہ رویہ ہے جو قوموں کو مضبوط بناتا ہے اور یہی وہ اتحاد ہے جو پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی منزل تک لے جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی اصلاحات صرف اعداد و شمار کا کھیل نہیں بلکہ قومی ہم آہنگی ، اتفاق رائے اور مسلسل محنت کا تقاضا کرتی ہیں۔ انہوں نے ایوان اور خاص طور پر حزب اختلاف سے گزارش کی کہ وہ اس قومی مقصد میں ہمارا ساتھ دیں اور آئیں ہم سب ملکر پاکستان کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں ایک ایسا مستقبل جو شفافیت ، شمولیت اور پائیدار ترقی پر استوار ہو۔ انہوں نے بجٹ تقریر کا اختتام اس دعا کے ساتھ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے اور پاکستان کو ترقی ، امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنائے۔
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ یہ اس مخلوط حکومت کا دوسرا بجٹ ہے اور میں وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت خصوصاً محمد نوازشریف، بلاول بھٹو زرداری، خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، عبدالعلیم خان اور خالد حسین مگسی کا رہنمائی کیلئے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مشکور ہوں۔
دریں اثناء وفاقی بجٹ پیش کرنے کے دوران پاکستان تحریک انصاف پر مشتمل اپوزیشن پارٹی مسلسل شور شرابہ کرتی رہی ۔ وفاقی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کی کاپیاں بھی پھاڑ ڈالیں۔