
:محمد ندیم قیصر (ملتان)
: تفصیلات
وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پائیداراور ہمہ جہت ملکی ترقی کےلئے معیشت کو دستاویزی بنانے، حکومتی اخراجات میں کمی،ٹیرف اصلاحات سمیت بنیادی معاشی ڈھانچے کو تبدیل کرنا ضروری ہے،ہماری کوشش ہے کہ مجموعی طور پر ٹیرف رجیم میں 4فیصد کی کمی لائی جائے، 2 ٹریلین کے اضافی ٹیکس اقدامات میں 312ارب روپے کے نئے ٹیکس ہیں، 2 ٹریلین کے اضافی اہداف کا زیادہ تر حصہ خودمختار نمو اور انفورسمنٹ کے اقدامات سے حاصل کیا جائے گا، 9.4ٹریلین کی غیردستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانا ضروری ہے، ستمبر میں یورو بانڈز سے 500 ملین ڈالر پاکستان کو وصول ہو جائیں گے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے سے خزانے پر 28 سے 30 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا،بجلی کے بلوں پر10فیصد سرچارج عائد نہیں کیا گیا۔پوسٹ بجٹ میڈیا بریفنگ میں وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیرف اصلاحات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ پہلا مقصد پروٹیکٹڈ رجیم کوتبدیل کرنا ہے تاکہ کیش اور انسانی وسائل میں بہتری آئے۔ اس سے برآمدی شعبے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ ڈھانچہ جاتی بنیادوں پر ملک کوآگے لے جانے کےلئے معیشت کے بنیادی ڈی این اے کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ 7ہزار ٹیرف لائن میں سے 4ہزار پر اضافی کسٹم ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے،27سو ٹیرف ائٹمز پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح کم کردی گئی، اس طرح 2ہزار ایسے ٹیرف لائن ہیں جن کا تعلق خام مال سے ہے اور اس سے برآمدی صنعت کو یقینی طور پر فائدہ پہنچے گا، ٹیرف اصلاحات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور ہماری کوشش ہے کہ مجموعی طور پر ٹیرف رجیم میں 4فیصد کی کمی لائی جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم اور ان کی کوشش تھی کہ تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دیا جاسکے وہ دیا جائے تاہم اس میں ہم اپنی مالی گنجائش کے مطابق جاسکتے ہیں، اسی طرح درمیانے درجے کے کارپوریٹ شعبے کےلئے سپر ٹیکس میں 0.5فیصد کی کمی کی گئی ہے۔
تعمیراتی شعبہ میں ریلیف ۔پانچ مرلہ گھر بنانے والوں کومارگیج فنانسنگ میں سہولیات فراہم۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ تعمیراتی شعبے میں ٹیکس کم نہیں ہوا ہے بلکہ کوشش کی گئی ہے کہ ٹرانزیکشن کی لاگت اور اخراجات میں کمی لائی جائے، پانچ مرلہ گھر بنانے والوں کومارگیج فنانسنگ میں سہولیات فراہم کررہے ہیں، اس ضمن میں سٹیٹ بنک سے ہماری بات چیت جاری ہے اور یہ سلسلہ بتدریج آگے بڑھایا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے امور کے مطابق کھادوں اور کیڑے مار ادویا ت پر اضافی ٹیکس عائد کرنا تھا جس کا مقصد استثنائی رجیم کا خاتمہ ہے۔وزیراعظم کی ہدایت پر گزشتہ سال ہماری آئی ایم ایف سے بات چیت ہوئی کہ یہ ٹیکس نہ لگائے جائیں ، یہ درست سمت میں قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کی تعمیل اور اصلاحات کا عمل آگے بڑھ رہا ہے، اس سال جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 10.3فیصد رہی جو آئندہ مالی سال میں 10.9فیصد ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ 2 ٹریلین کے اضافی ٹیکس اقدامات میں 312ارب روپے کے نئے ٹیکس ہیں، 2 ٹریلین کے اضافی اہداف کا زیادہ تر حصہ خودمختار نمو اور انفورسمنٹ اقدامات سے حاصل کیا جائے گا اس حوالے سے ہم قانون سازی کی طرف جائیں گے اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو اعتماد میں لیں گے۔ اگرانفورسمنٹ کے اقدامات نہیں ہوں گے تو ہمیں 400 سے 500 ارب روپے تک کے ٹیکس لگانا پڑیں گے۔
تنخواہ و پنشن اصلاحات ۔افراط زر سے منسلک ۔ زراعت معیشت کا انجن۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا تعلق افراط زر سے ہے۔ پنشن اصلاحات کا عمل جاری ہے۔ حکومت نے پنشن کو افراط زر سے منسلک کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت معیشت کا انجن ہے، زرعی جی ڈی پی میں ڈیری اور لائیو سٹاک کا حصہ 60فیصد کے قریب ہے، سٹوریج سہولیات، فنانسنگ میں اضافہ اور چھوٹے کسانو ں کو قرضوں کی فراہمی کی جائے گی، اس حوالے سے صوبوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے جوشعبے صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں، وفاقی حکومت ان میں بھرپورمعاونت فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہوں اور پنشن کے حوالے سے بنچ مارک ہونا چاہئے، پوری دنیا میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہوتا ہے، حکومت نے ٹیکسوں میں زیادہ اضافہ نہیں کیا، اس کے برعکس کفایت شعاری اوراخراجات میں کمی کی گئی ہے، اس سال حکومتی اخراجات میں 1.9فیصد کا معمولی اضافہ ہوا ہے ، حکومت سبسڈیزکو ختم کررہی ہے جبکہ قرضوں کے انتظام و انصرام کو بھی بہتر بنایا جارہا ہے، وفاقی حکومت کے اخراجات میں کمی ہماری ترجیح ہے، اپنی چادر دیکھ کر پاﺅں پھیلانا ہے کیونکہ جتنی بھی سہولیات عوام کو فراہم کی جارہی ہیں وہ قرضے لے کر دی جارہی ہیں۔وزیر خزانہ نے کہاکہ معیشت کو دستاویزی بنانا وقت کی ضرورت ہے، اس وقت غیردستاویزی معیشت کا حجم 9.4ٹریلین ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ این ایف سی سے متعلق امور صوبوں کی مشاورت سے آگے بڑھائے جائیں گے، این ایف سی کے حوالے سے نامزدگیا ں منگوائی گئی ہیں، وزیراعظم نے خود کہا ہے کہ اگست میں این ایف سی کا اجلاس ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کے بلوں پر10فیصد سرچارج عائد نہیں کیا گیا، وزرا اور پارلیمنٹیرین کی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ آخری دفعہ 2016 میں وزرا کی تنخواہوں کو ایڈجسٹ کیا گیا تھا اس کے بعد اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، اس لئے تنخواہوں میں اضافہ زیادہ نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ڈان گروپ نے جو قدم اٹھایا ہے میں اس کو سراہتا ہوں، یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ وہ حکومت کے شانہ بشانہ گلوبل وارمنگ کے حوالے سے اقدامات کر رہے ہیں۔
یوتھ نے فری لانسنگ کے ذریعے 4 سو ملین ڈالر کمائے۔بجٹ میں ترجیحی اقدامات ۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں 63 فیصد نوجوانوں کےلئے حکومت نے ترجیحی بنیادوں پر آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اقدامات اٹھائے ہیں جس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے اور رواں سال پاکستانی یوتھ نے فری لانسنگ کے ذریعے 4سو ملین ڈالر کمائے ہیں اور اس کو بہتر بنانے کےلئے مزید اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سال ٹیکسز کے مقابلے میں جی ڈی پی کی شرح 10.3فیصد ہے جو کہ اگلے انشااللہ سال 10.9 فیصد ہوگی، 22 کھرب کی جو بات کی گئی ہے اس میں سے اضافی ٹیکسز صرف 312 ارب روپے ہیں، اس بارے میں سوچیں کہ 22 کھرب میں صرف 312 ارب کے اضافی ٹیکسز ہیں اور باقی خود کار نمو اور نفاذ کا پہلو ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ اس حوالے سے اب ہم قانون سازی کی طرف جائیں گے اور دونوں ایوانوں سے بات کریں گے اور ٹیکسز کے نفاذ کے لیے قانون میں ترمیم کریں گے کیونکہ اگر ٹیکسز کا نفاذ نہیں کرسکے تو ہمیں 4سو سے 5سو ارب روپے کے اضافی اقدامات کرنا پڑیں گے۔انہوں نے کہاکہ پارلیمان سے ہماری یہی گزارش ہوگی کہ وہ ٹیکسز کے نفاذ کے لئے درکار قانون سازی اور ترامیم مہیا کریں تاکہ ہمیں اضافی اقدامات نہ کرنا پڑیں اور نظام میں لیکیج کو روکا جاسکے۔
پاور سیکٹر میں ریکوری بہتر ، ٹرانسمیشن نقصانات کو کم کرنے پر توجہ ۔ضم شدہ اضلاع میں سیلز ٹیکس کا اطلاق۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع میں سیلز ٹیکس کا اطلاق مرحلہ وار ہو گا اور پہلے مرحلے میں 10 فیصد کی کم شرح سے اس کا اطلاق کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال ستمبر میں یورو بانڈز سے 5سو ملین ڈالر پاکستان کو وصول ہو جائیں گے۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں موجود وفاقی سیکرٹری خزانہ امداد اللّٰہ بوسال نے میڈیا بریفنگ میں وزیر خزانہ کی ماہرانہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ کھادوں اورکیڑے مار ادویات پرگزشتہ سال ٹیکس لگنا تھا، وزیراعظم کی ہدایت پر ہم نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بات چیت کی اور ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ آنے والے مالی سال میں اس کا اطلاق کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ زراعت میں بعض اقدامات صوبوں نے اور بعض وفاق نے کرنا ہیں، ہم نے آئی ایم ایف کو قائل کیا کہ اس سال ٹیکس نہ لگایا جائے، ایگری فنانس پر کام ہورہا ہے، وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق میں وزیراعظم کی ہدایت پر ٹاسک فورس بھی قائم کی گئی ہے، ان اقدامات کا بنیاد ی مقصد زراعت کا فروغ ہے۔ سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ جاری مالی سال میں اخراجات کے رجحان کو دیکھا جائے تو حکومت نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ اخراجات پر قابو پایا جائے جہاں ضرورت تھی وہاں اخراجات کئے گئے اسی وجہ سے جاری مالی سال میں اخراجات میں صرف 1.9فیصد کا معمولی اضافہ ہوا، مالی سال 2022 میں اخراجات میں 15.9فیصد، مالی سال 2023 میں 23.6فیصد اور 2024 میں 12.2فیصد اضافہ ہوا تھا۔ سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے سے خزانے پر 28 سے 30 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔
سولر امپورٹ پر 18 فیصد یکساں ٹیکس مقامی انڈسٹری کے مطالبہ پر عائد کیا گیا۔ایف بی آر
ایف بی آر حکام کی طرف سے میڈیا بریفنگ میں بتایا گیا کہ مقامی سولر پر 18 فیصد ٹیکس تھا اور جو امپورٹ ہو رہے تھے اس پر ٹیکس زیرو تھا تو مقامی سولر انڈسٹری کی طرف سے یہ مطالبہ تھا کہ امپورٹ سولر پر بھی یکساں ٹیکس نافذ کیا جائے تا کہ تفریق ختم ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ کافی سمیت چار درآمدی اشیا کو تیسرے شیڈول میں اس لئے شامل کیا گیا ہے تاکہ ڈیکلیئر قیمت اور مارکیٹ قیمت کے درمیان فرق کی نگرانی کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ غیر منافع بخش اداروں پر دنیا بھر میں انکم ٹیکس کی ذمہ داری نہیں ہوتی، ایسے اداروں کےلئے شرائط وحدود ہوتے ہیں، ہم نے ٹیبل ون اور ٹیبل ٹو کو اکٹھا کردیا ہے، آئندہ کوئی بھی ادارہ سکروٹنی سے باہر نہیں ہوگا، یہ اصلاحات کا حصہ ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ٹیکس رجیم، سیلف اسسمنٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے، انفورسمنٹ اقدامات کے تحت نہ صرف ڈیجیٹل انوائسنگ پر کام ہو رہا ہے بلکہ کارگو ٹریکنگ کی بھی نگرانی کی جاتی ہے، اب ہر دو ماہ کے بعد ریٹرن جمع کروانے کی ضرورت نہیں ہوگی، اسی طرح ادائیگی کے نظام کو ہم آہنگ کیا جا رہا ہے، اگر کوئی فراڈ کر رہا ہے تو اس کےلئے قانون سازی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے افسران کو اختیارات کے ساتھ ساتھ ذمہ داری اور جوابدہی بھی ضروری قرار دی گئی ہے۔
ٹیکس شرح کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لانا ترجیحات میں شامل: وزیر خزانہ۔
وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لانا ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ بدھ کو پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹیکس کی تعمیل اور اصلاحات کا عمل آگے بڑھ رہا ہے، اس سال جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 10.3فیصد رہی جو آئندہ مالی سال میں 10.9فیصد ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ 2 ٹریلین کے اضافی ٹیکس اقدامات میں 312ارب روپے کے نئے ٹیکس ہیں، 2 ٹریلین کے اضافی اہداف کا زیادہ تر حصہ خودمختار نمو اور انفورسمنٹ کے اقدامات سے حاصل کیا جائے گا اس حوالے سے ہم قانون سازی کی طرف جائیں گے اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو اعتماد میں لیں گے اگرانفورسمنٹ کے اقدامات نہیں ہونگے تو ہمیں 400 سے 500 ارب روپے تک کے ٹیکس لگانا پڑیں گے۔