
:محمد ندیم قیصر ( ملتان )
: تفصیلات
جماعت اسلامی کے زیر اہتمام بلوچستان کے حقوق کے لیے جاری “حق دو بلوچستان لانگ مارچ” مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کی قیادت میں ملتان پہنچ گیا۔ لانگ مارچ کا پرتپاک استقبال مدرسہ جامعہ العلوم میں کیا گیا، جہاں امیر جماعت اسلامی بلوچستان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کی محرومیوں، بدامنی اور ریاستی جبر پر گہرے دکھ کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان کی فریاد لے کر نکلے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو جینے کا حق دیا جائے، تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں اور جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پانی یا بجلی نہیں مانگ رہے، صرف انسانی زندگی کی ضمانت چاہتے ہیں۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ ماہرنگ بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کو فوری رہا کیا جائے۔ ہم اسلام آباد جا کر اپنی بہنوں کے دھرنے میں شامل ہوں گے اور ان مظلوم ماو ¿ں، بہنوں، بچوں کی آواز ایوانوں تک پہنچائیں گے۔ بلوچستان کے عوام پروفیسر، ڈاکٹر اور امن چاہتے ہیں، جنگ نہیں۔اس موقع پر سید ذیشان اختر امیر جماعت اسلامی جنوبی پنجاب، صہیب عمار صدیقی امیر جماعت اسلامی ملتان ، زاہد اختر بلوچ نائب امیر جماعت اسلامی بلوچستان،مولانا عبد الرزاق مہتمم جامع العلوم ،حافظ محمد اسلم نائب امیر جماعت اسلامی ملتان، چوہدری اطہر عزیز ایڈوکیٹ نائب امیر ضلع اور حق دو بلوچستان مارچ کے شرکاء سمیت ملتان جماعت کے دیگر ذمہ دران بھی موجود تھے۔
بلوچستان میں حکومتی رٹ صرف چند گھنٹے نظر آتی ہے، باقی وقت بدامنی، خوف اور لاقانونیت کا راج
مولانا ہدایت الرحمٰن نے مزید کہا کہ بلوچستان میں حکومتی رٹ صرف چند گھنٹے نظر آتی ہے، باقی وقت بدامنی، خوف اور لاقانونیت کا راج ہے۔ 249 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں سے 83 ارب صرف سیکیورٹی پر خرچ ہوتے ہیں جبکہ عوام صحت، تعلیم اور روزگار سے محروم ہیں۔انہوں نے کہا کہ سی پیک کا آغاز بلوچستان سے ہوا، لیکن آج تک ہمیں ایک منصوبہ بھی نہیں ملا۔ کوئٹہ کراچی ہائی وے پر ہر سال ہزاروں لوگ جان سے جاتے ہیں، لیکن حکومت ایک کلومیٹر سڑک دینے کو تیار نہیں۔ بلوچستان کے ساتھ یہ مسلسل زیادتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم کوئی غیر آئینی تحریک نہیں چلا رہے، ہم پرامن جدوجہد کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں گوریلا کمانڈر بنا کر پیش کرنا سراسر ظلم ہے۔ ہماری بہنوں پر اسلام آباد میں تشدد کیا جا رہا ہے، ہمارے معدنی وسائل پر قبضہ کیا گیا ہے اور ہمیں اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر مودی بلوچستان میں پیسہ لگا سکتا ہے تو پاکستان کے حکمران بلوچ نوجوانوں پر سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے؟ ہم سوال پوچھنے جا رہے ہیں کہ بلوچستان کو میدانِ جنگ کیوں بنا دیا گیا ہے؟ را کو ختم کس نے کرنا ہے؟ اور ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیوں کر رہی ہے؟۔