
: محمد ندیم قیصر (ملتان)
: تفصیلات
پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کی گونج ایک عرصے سے سنائی دے رہی ہے۔مختلف سیاسی جماعتیں اور گروہ اپنے اپنے علاقوں کے لیے نئے صوبے بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف وجوہات پیش کی جاتی ہیں، جن میں انتظامی سہولت، وسائل کی منصفانہ تقسیم، اور مقامی تشخص کا تحفظ شامل ہیں۔نئے صوبے بنانے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے انتظامی امور بہتر طریقے سے چلائے جا سکیں گے اور لوگوں کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنا آسان ہو جائے گا۔ ان کے مطابق، بڑے صوبوں میں وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے کچھ علاقے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ نئے صوبے بنانے سے وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو سکے گی اور تمام علاقوں کی ترقی میں یکسانیت آئے گی۔تاہم، نئے صوبوں کی تشکیل کے مخالفین بھی موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ملک میں انتشار اور عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق، نئے صوبے بنانے سے وسائل تقسیم ہوں گے اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچے گا۔ اس کے علاوہ، نئے صوبوں کی تشکیل میں بہت زیادہ مالی اخراجات بھی شامل ہوں گے، جو ملک کی معیشت پر بوجھ ڈال سکتے ہیں۔پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کا معاملہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس پر گہری بحث اور غور و خوض کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
جنوبی پنجاب کے چند علاقوں میں ایک الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ
ملتان ضلع میں نئے صوبوں کی گونج کے حوالے سے مزید تفصیلات یہ ہیں
جنوبی پنجاب کے چند علاقوں میں ایک الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، جس میں ملتان بھی شامل ہے۔ اس مطالبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک کیا جاتا رہا ہے اور اسے ترقی کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے ہیں۔صوبہ بہاولپور کی بحالی کا مطالبہ کرنیوالے اس خطہ کی الگ ثقافت اور تاریخ منفرد ہونے کا حوالہ دے رہے ہیں ٬بہاولپور کے علاقے میں بھی ایک الگ صوبہ بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ اس مطالبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بہاولپور کی اپنی ایک الگ ثقافت اور تاریخ ہے، اور اسے الگ صوبہ بنا کر اس کی شناخت کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔صوبہ سرائیکستان کے حامی طبقے کا مؤقف ہے کہ سرائیکی وسیب کے علاقے میں بھی ایک الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ سرائیکی زبان اور ثقافت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک الگ صوبہ ضروری ہے۔ان تمام مطالبات میں سے کسی ایک پر بھی عمل درآمد کرنے کے لیے کافی بحث اور مشاورت کی ضرورت ہے۔
وفاق کا بڑا قدم :پاکستان کو 12 صوبوں میں تقسیم کرنے کی تیاری، نسلی سیاست کو دھچکا
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا انتظامی ڈھانچے کا منصوبہ تیار، ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے ملک کو بارہ (12) نئے صوبوں میں تقسیم کرنے کی گونج سنائی دے رہی ہے ۔ یہ اقدام نسلی و لسانی بنیادوں پر صوبائی سیاست کو کمزور کرنے اور وفاق کو مزید مضبوط بنانے کیلئے اٹھایا جا رہا ہے۔موجودہ صوبائی ڈھانچہ 1970ء میں قائم ہوا تھا اور چلا آ رہا ہے، جو بڑی حد تک لسانی بنیادوں پر بن چکا ہے۔ماہرین کے مطابق انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم سے ترقیاتی فنڈز کی منصفانہ تقسیم، تیز گورننس اور مرکز کے ساتھ ہم آہنگی ممکن ہوگی۔بھارت، نائیجیریا اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں اس حکمت عملی نے کامیابی حاصل کی ہے۔
پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا ختم کر کے ہر ایک کو چھوٹے صوبوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ
ذرائع کے مطابق موجودہ صوبائی سیٹ اپ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا ختم کر کے ہر ایک کو چھوٹے صوبوں میں تقسیم کیا جائے گا، کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی مزید اختیارات دیئے جائیں گے۔مجوزہ 12 صوبے ٬ ہیڈکوارٹرز اور اہم علاقوں بارے مزید تفصیلات کے مطابق پنجاب کو چار صوبوں میں تقسیم کیا جائے گا٬ان میں پنجاب وسطی کا ہیڈکوارٹر لاہور تجویز کیا گیا ہے اور اس مجوزہ صوبہ میں لاہور، قصور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، اوکاڑہ کے اضلاع کو شامل کیا
گیا ہے۔
مجوزہ صوبہ پنجاب شمالی کا ہیڈکوارٹر راولپنڈی تجویز کیا گیا ہے اس کی حدود میں جن راولپنڈی، اٹک، جہلم، چکوال، میانوالی، خوشاب اضلاع کی شمولیت تجویز کی گئی ہے پنجاب جنوبی کا ہیڈکوارٹر ملتان کو تجویز کرتے ہوئے اس کی مجوزہ حدود میں ملتان، خانیوال، وہاڑی، لودھراں، بہاولپور اور رحیم یار خان اضلاع شامل کیے گئے ہیں٬ چوتھے مجوزہ صوبہ پنجاب مغربی کا ہیڈکوارٹر فیصل آباد تجویز کرتے ہوئے اس کی حدود میں فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، سرگودھا اور بھکر کے اضلاع تجویز کیے گئے ہیں۔
بلوچستان کی چار صوبوں کی مجوزہ تقسیم کا فارمولہ
بلوچستان کی چار صوبوں کی مجوزہ تقسیم کا فارمولہ سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے٫بلوچستان ساحلی کا ہیڈکوارٹر گوادر اور مجوزہ اضلاع گوادر، کیچ، پسنی، اورماڑہ اور لسبیلہ ہوں گے٫ مجوزہ صوبہ بلوچستان وسطی کا ہیڈکوارٹر خضدار اور اضلاع خضدار، قلات، مستونگ، آواران اور سوراب تجویز کیے گئے ہیں٬ تیسرے مجوزہ صوبہ بلوچستان شمالی کا ہیڈکوارٹر کوئٹہاور اضلاع میں کوئٹہ، زیارت، پشین، قلعہ عبداللہ اور چمن کو شامل کیا گیا ہے٬ چوتھے تجویز کردہ صوبہ بلوچستان مشرقی کا ہیڈکوارٹر ڈیرہ مراد جمالی اور اضلاع میں نصیر آباد، جھل مگسی، کچھی، سبی، ڈیرہ بگٹی ہوں گے۔
خیبر پختونخوا کی دو صوبوں میں تقسیم کا فارمولہ
خیبر پختونخوا کو دو صوبوں میں تقسیم کرنے کے فارمولہ میں خیبر شمالی کا ہیڈکوارٹرپشاوراوراضلاع پشاور، مردان، صوابی، نوشہرہ، چارسدہ اور بونیر تجویز کیے گئے ہیں٫خیبر جنوبی کا ہیڈکوارٹر ڈیرہ اسماعیل خان اور اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، کوہاٹ، ہنگو، کرک و بنوں تجویز کیے گئے ہیں۔
سندھ کی دو صوبوں میں تشکیل کا مجوزہ منصوبہ
سندھ کی دو صوبوں میں مجوزہ تقسیم کے فارمولہ کے تحت سندھ شہری کا ہیڈکوارٹر کراچی اور حدود کراچی کے تمام اضلاع اور حیدرآباد کو شامل کیا گیا ہے سندھ دیہی مجوزہ صوبہ کا ہیڈکوارٹر سکھر اور اضلاع میں سکھر، لاڑکانہ، خیرپور، شکارپور، نواب شاہ، دادو اور میرپور خاص کو شامل کیا گیا ہے
بارہ صوبوں کی مجوزہ تقسیم کیلئے تین ماہ کی مدت مقرر٬ آئینی مسودہ اور صوبائی حدود کا تعین.
پاکستان کو بارہ انتظامی صوبوں میں مجوزہ طور پر تقسیم کرنے کیلئے تین ماہ کی مدت مقرر کرتے ہوئے آئینی مسودہ اور صوبائی حدود کا تعین کرنا تجویز کیا گیا ہے٫ اس سلسلے میں چھ ماہ قومی و صوبائی اسمبلیوں سے دو تہائی اکثریت سے منظوری حاصل کرنے کی شرط بھی عائد کی گئی ہے٫چار ماہ میں عبوری گورنر، چیف سیکرٹری اور آئی جی کی تعیناتی عمل میں لانا تجویز کیا گیا ہے آٹھ ماہ میں نئی حلقہ بندیاں اور انتخابات کروانے کی تجویز دی گئی ہےتین سال میں مستقل صوبائی دارالحکومت اور سیکرٹریٹ کی تعمیر کا فارمولہ دیا گیا ہے.
بارہ صوبوں کی تشکیل کے مجوزہ فارمولہ بارے ملا جلا عوامی ردعمل
بارہ صوبوں کی تشکیل کے مجوزہ فارمولہ بارے ملا جلا عوامی ردعمل کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے٬شہری علاقوں میں خوشی دیہی علاقوں میں تحفظات کا اظہار ممکنات میں ہے٬سیاسی جماعتیں: وفاقی جماعتیں کریڈٹ لینے کی کوشش کریں گی قوم پرست جماعتوں کا ممکنہ احتجاج ہو سکتا ہے