: محمد ندیم قیصر (ملتان)
: تفصیلات
کھیلوں کی صحافت کا معترنام سید محمد صوفی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے٬وہ جیو نیوز کے سپورٹس ایڈیٹر اور پاکستان کے بڑے میڈیا گروپ جنگ گروپ کے تین دہائیوں سے وابستہ تھے٬
انہوں نے نامور سپورٹس جرنلسٹ ماجد بھٹی سمیت متعدد صحافیوں کو کھیلوں کی دنیا میں بحیثیت صحافی متعارف کروایا اس حوالے سے ماجد بھٹی نے اپنے تعزیتی تاثرات میں مرحوم سید صوفی کے ساتھ اپنی وابستگی بارے اپنی سوشل میڈیا وال پر تعزیتی تحریر میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ خوش قسمت رہے کہ انہیں صحافت کے ابتدائی دنوں میں صوفی صاحب جیسے استاد ملے۔ انہوں نے ہی مجھے ریڈیو پاکستان، اخبار وطن ،جنگ اور جیو میں متعارف کروایا۔
صوفی صاحب انتہائی شفیق، قابل اور ملنسار شخص، ایسے لوگ اب صحافت میں کم کم ہیں۔ان کا شمار کراچی پریس کلب کے سنیئر ترین اراکین میں ہوتا تھا۔صحافت کا ایک عہد ہوا تمام ۔کہ صوفی تھا جس کا نام ۔اسپورٹس جرنل ازم کو نئی جہت سے روشناس کرانے والے سینئر صحافی طویل عرصے سے علیل تھے 80 سالہ سید محمد صوفی روزنامہ جنگ سمیت کئی اخبارات اور رسائل سے منسلک رہے ،
سید صوفی صاحب نے مارشل لاء کے دور میں آزادی صحافت کی جدوجہد کے دوران قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔1977ءمیں ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف گرفتاری دی کئی ماہ کراچی اور ساہیوال جیل میں رہے۔
سید محمد صوفی نے بیوہ ، چار بیٹوں ہ اور سینکڑوں شاگردوں کو سوگوار چھوڑا،سید محمد صوفی نےصحافت ایک جونیئر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے شروع کی۔1980ءکی دہائی میں مشہور صحافی ناردر شاہ عادل نے انہیں منیر حسین نے ملاوایا جنہوں نے اپنے کرکٹ میگزین میں ملازمت دی جہاں صوفی صاحب نے منفرد انداز میں اپنی تحریروں اور انٹر ویوز سے شہرت حاصل کی،انہوں نے عمران خان،وسیم اکرم،رمیز راجا،،وقاریونس،معین خان ،راشد لطیف ،انضمام الحق سنیت کئی کھلاڑیوں کے معرکہ آرا انٹر ویوز کئے۔ ان کی کمی شائد اردو کرکٹ صحافت میں پوری نہ ہوسکے۔
صوفی صاحب صرف ایک صحافی نہیں ٬ بلکہ درسگاہ: عبدالرشید شکور
بی بی سی کیلئے طویل عرصہ بین الاقوامی سپورٹس کوریج کرنیوالے پاکستان کے نامور صحافی عبدالرشید شکور نے کہا کہ
صوفی صاحبصرف ایک صحافی نہیں بلکہ ایک درسگاہ جو اپنا علم دوسروں میں منتقل کرنے میں ہمیشہ خوشی محسوس کرتے٬ایک اسپورٹس صحافی ہی نہیں بلکہ پولٹیکل صحافی کے طور پر ضیاء الحق کے مشکل ترین سیاسی حالات میں جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے جیل کی سختیاں بھی حوصلہ مندی سے برداشت کیں۔۔یہ تھے ہمارے صوفی صاحب۔
صوفی صاحب سے ایک قلبی تعلق رہا ابتداء اخبار وطن سے ہوئی پھر عالمی اسپورٹس راؤنڈاپ اور پھر ایکسپریس۔بہت کچھ سیکھنے کو ملا
وہ علم کا خزانہ تھے۔ ہمارا مشترکہ شوق بلکہ جنون کتب بینی۔ ہر وقت پوچھتے رشید صاحب اسوقت کونسی کتاب آپ کے زیر مطالعہ ہے ؟ کام کے معاملے میں سنجیدہ لیکن بذلہ سنجی کمال کی تھی۔