
:محمد ندیم قیصر (ملتان)
:تفصیلات
وفاقی حکومت نے شمسی توانائی کے حوالے سے عوامی سطح پر پائے جانے والے ابہام کو دور کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہےاس حوالے سے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت پاور ڈویژن کے امور پر اہم جائزہ اجلاس میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کی پالیسی اور ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔جنریشن کمپنیوں کے خاتمے کے حوالے سے تمام تر قانونی اور دیگر امور جلد از جلد طے کئے جائیں ۔وزیراعظم نے بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کا عمل تیز تر کرنے کی ہدایت کی اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے حوالے سے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی کے تحت پیکج تیار کیا جا رہا ہے جس کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔
پاور سیکٹر میں اصلاحات کی بدولت عوام کو بجلی کی قیمت میں ریلیف فراہم کرنے کی ہدایت۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ پاور سیکٹر میں اصلاحات کی بدولت عوام کو بجلی کی قیمتوں میں ریلیف فراہم کیا جائے گا۔توانائی کے شعبے کے حوالے جامع حکمت عملی کے لئے پاور ڈویژن ، آبی وسائل ڈویژن اور پیٹرولیم ڈویژن میں ہم آہنگی مزید بہتر بنائی جائے گی۔اجلاس میں وفاقی وزیر پاور ڈویژن سردار اویس احمد لغاری ، وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر توقیر شاہ اور متعلقہ اعلیٰ سرکاری افسران نے شرکت کی٫ جبکہ وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور احد خان چیمہ اور وزیراعظم کے مشیر محمد علی نے بذریعہ وڈیو لنک اجلاس میں شرکت کی۔
ایف بی آر کی کارکردگی بارے اجلاس، وزیر اعظم کا ساڑھے 34 ارب روپے کی ریکوری پر اطمینان کا اظہار ، مستقل نظام بارے رپورٹ طلب۔
وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے قومی خزانے کو ساڑھے 34 ارب روپے کا فائدہ پہنچانے پر ایف بی آر حکام کی کاوش کو سراہتے ہوئے زور دیا ہے کہ ایف بی آر کی ریکوری کے حوالے سے مستقل بنیادوں پر مربوط قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے، 24 گھنٹوں میں ریکوری کا عمل قابل ستائش اقدام ہے، محنت و لگن سچی ہو تو کامیابی ضرور ملتی ہے ،ہمیں مستقل بنیادوں پر ایک پائیدار نظام تشکیل دے کر کئی دہائیوں کی خرابیوں کو مل کر ٹھیک کرنا ہو گا۔ایف بی آر کی کارکردگی کے حوالہ سے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے مستقل نظام کی تشکیل کیلئے لائحہ عمل بھی طلب کر لیا۔
وزیرِ اعظم نے وزیرِ قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ، وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب، وزیرِ اقتصادی امور احد خان چیمہ، وزیرِ اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ، مشیر وزیرِ اعظم ڈاکٹر سید توقیر شاہ، اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان، سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال، سیکریٹری اطلاعات عنبرین جان، چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال، ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو فواد اسداللہ خان، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے جان محمد اور متعلقہ تمام افسران کی ریکوری کیلئے اقدامات کو سراہا ۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر ریکوری قابل ستائش اقدام ہے،ایسے بہترین نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ محنت و لگن سچی ہو تو کامیابی ضرور ملتی ہے۔
سو فیصد ڈیجیٹلائزیشن، تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن سے نظام میں بہتری کی امید۔خورد برد میں ملوث عناصر کے گرد شکنجہ کسنے کی ہدایت۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ابھی ہمارا سفر شروع ہوا ہے،ہمیں مستقل بنیادوں پر ایک پائیدار نظام تشکیل دینا ہے اور کئی دہائیوں کی خرابیوں کو ہمیں مل کر ٹھیک کرنا ہے۔ وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ ایف بی آر کی ریکوری کے حوالے سے مستقل بنیادوں پر مربوط قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے،ایف بی آر کے حوالے سے اصلاحات و ٹیکس قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے حوالے سے بھی ایک لائحہ عمل تشکیل دے کر پیش کیا جائے اور ایف بی آر کی افرادی قوت کی بہتری کیلئے ایک پلان تشکیل دیا جائے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ سو فیصد ڈیجیٹلائزیشن، تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن اور مسلسل نگرانی سے ہی نظام میں بہتری آئے گی۔وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ ایسے افسران و اہلکار جو کسی بھی قسم کی خوردبرد میں ملوث پائے جائیں ان کے خلاف بھرپور کاروائی عمل میں لائی جائے،اچھی کارکردگی والے افسران و اہلکاروں کی ستائش بھی یقینی بنائی جائے۔
عدالتوں میں زیر التوا مقدمات بارے حکومتی ٹیم کے ان مقدمات کی ریکوری کے حوالے سے اقدامات پر بریفنگ۔
اجلاس میں وزیرِ اعظم کو ٹیکس کے حوالے سے عدالتوں میں زیر التوا مقدمات بارے حکومتی ٹیم کے ان مقدمات کی ریکوری کے حوالے سے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر نے وزیرِ اعظم کو ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ آف لاء کی اصلاحات، ٹیکس جانچ کیلئے ٹیکس افسران کی کارکردگی کی جانچ کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر ایف بی آر کی جاری اصلاحات بارے بھی آگاہ کیا۔اجلاس میں وفاقی وزراء اعظم نذیر تارڑ، احد خان چیمہ، مشیرِ وزیرِ اعظم سید توقیر شاہ، اٹارنی جنرل منصور اعوان، سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوصال، سیکرٹری اطلاعات عنبرین جان، چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال اور ڈائیریکٹر جنرل انٹیلی جینس بیورو فواد اسداللہ خان بھی شریک تھے۔