
: محمد ندیم قیصر/ عبدالسلام آہیر (ملتان)
: تفصیلا ت
ایران نے تین افراد کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں پھانسی دی ہے، جو ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں اہم ہے۔
تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے ادریس عالی، آزاد شجاعی، اور رسول احمد کو پھانسی دی ہے، جن پر اسرائیل کے خفیہ ادارے موساد کے ساتھ مل کر کام کرنے اور ایران میں اہم شخصیات کے قتل کے لیے ساز و سامان اسمگل کرنے کا الزام تھا۔ یہ عمل آج 25 جون 2025 کو، ارومیہ جیل میں انجام پایا۔ ان افراد کو قانونی طور پر گرفتار، مقدمہ چلایا، اور مکمل قانونی عمل سے گزرنے کے بعد سزا دی گئی، جس کی تصدیق ایران کی عدلیہ کی جانب سے کی گئی ہے۔
ایران، اسرائیل اور امریکہ کے مابین تنازعہ شدت اختیار کر گیا۔ میزائل حملوں اور جوابی کاروائیاں کا سلسلہ جاری
امریکی شدت پسندی اور ایران پر حملہ ،مشرق وسطی میں جنگی تنازعہ میں شدت۔
۔23 جون 2025 مشرق وسطیٰ میں ایران، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تنازعہ تیزی سے ایک خطرناک موڑ پر پہنچ گیا ہے، جہاں میزائل حملوں، فضائی کارروائیوں اور سفارتی بیانات نے خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق، ایران نے قطر میں واقع امریکی العدید ایئر بیس پر میزائل حملہ کیا، جسے قطر نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے ایران کے فوجی اہداف پر فضائی حملے جاری رکھے ہیں، جبکہ امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بناتے ہوئے تین اہم تنصیبات پر حملے کیے ہیں۔ یہ تنازعہ عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے، اور عالمی برادری اسے روکنے کے لیے سفارتی کوششوں میں مصروف ہے ۔یہ تنازعہ 13 جون 2025 کو اس وقت شدت اختیار کر گیا جب اسرائیل نے ایران کے جوہری تنصیبات پر اچانک فضائی حملے کیے۔ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا کہ یہ حملے ایران کے مبینہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو روکنے کے لیے ضروری تھے۔ ایران نے ان حملوں کو اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے فوری جوابی کارروائی کی۔ ایرانی فوج نے اسرائیل کے اہم شہروں تل ابیب، یروشلم اور حیفا پر جدید خیبر شکن میزائلوں سے حملے کیے، جو اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔22 جون کو صورتحال اس وقت مزید خراب ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکی جنگی طیاروں اور آبدوزوں نے ایران کے تین جوہری مراکز – نطنز، فوردو اور ۔اصفہان پر حملے کیے ہیں
ایران ،اسرائیل اور امریکہ کی باہمی جنگ میں ایک دوسرے پر تباہ کن حملوں کے دعوے
امریکی حکام کے مطابق، ان حملوں سے ایران کے جوہری پروگرام کو “دہائیوں پیچھے” دھکیل دیا گیا ہے۔ سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ نطنز تنصیب کے اوپر ایک بڑا گڑھا بن گیا ہے، جو امریکی حملوں کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایران نے ان حملوں کو “ریاستی دہشت گردی” قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کیا ہے۔23 جون کی شام کو ایران نے قطر میں واقع امریکی العدید ایئر بیس پر میزائل حملہ کیا۔ ایرانی میڈیا نے اسے “امریکی جارحیت کا جواب” قرار دیا۔ قطری فضائی دفاع نے کئی میزائلوں کو روکا، لیکن دوحہ کے اوپر دھماکوں کی اطلاعات نے شہریوں میں خوف پھیلا دیا۔ ایران نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا ہے ۔ایرانی فوج کے ترجمان نے خبردار کیا کہ اگر امریکہ یا اسرائیل نے مزید حملے کیے تو ایران مغربی ایشیا اور اس سے باہر امریکی اور اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنائے گا۔ ایرانی قیادت نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی بھی دی ہے، جو عالمی تیل کی ترسیل کا اہم راستہ ہے۔اسرائیل نے ایران کے فوجی اہداف پر اپنی فضائی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ 22 جون کو اسرائیلی فضائیہ نے یزد کے قریب امام حسین اسٹریٹجک میزائل بیس کو نشانہ بنایا، جہاں ایران کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے خرمشہر میزائل رکھے گئے تھے۔ ایران نے اس کے جواب میں خرمشہر-4 میزائلوں کا استعمال کیا، جو پہلی بار عملی طور پر استعمال ہوئے۔اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل اپنے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنا اسرائیل کا بنیادی مقصد ہے۔ اسرائیل نے اپنے شہریوں کے لیے سخت حفاظتی اقدامات نافذ کیے ہیں، جن میں اسکولوں اور دفاتر کی بندش شامل ہے۔امریکی کردار اور سفارتی بیانات امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے کہا کہ اگر ایران نے امریکی اہداف پر حملہ کیا تو وہ “تباہ کن نتائج” بھگتے گا۔ تاہم، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سفارتی حل کی حمایت کی اور کہا کہ امریکہ فی الحال مزید حملوں سے گریز کرے گا اگر ایران امریکی مفادات کو نشانہ نہ بنائے۔ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے امریکی اور اسرائیلی حملوں کی مذمت کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل اور امریکی حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ،ایران اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے : ایران
ایران کا موقف ہے کہ یہ حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں اور ایران اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔ روس نے امریکی حملوں کی مذمت کی اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ساتھ ماسکو میں ہنگامی ملاقات کی۔ چین نے آبنائے ہرمز کی ممکنہ بندش پر تشویش کا اظہار کیا، کیونکہ اس سے اس کی تیل کی درآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔ یورپی یونین نے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے، لیکن سفارتی کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔تیل کی عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ آبنائے ہرمز کی بندش کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔ فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک نے مشرق وسطیٰ کے لیے پروازیں معطل کر دی ہیں۔خطرات اور مستقبل یہ تنازعہ ایک وسیع تر علاقائی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اسرائیل کی فوجی مہم اور امریکہ کی براہ راست شمولیت نے خطے کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خبردار کیا کہ فوری سفارتی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ تنازعہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن جائے گا۔ایران نے اپنے اتحادیوں، جیسے کہ حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں، کو متحرک کرنے کی دھمکی دی ہے، جو اسرائیل اور امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ عالمی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ تنازعہ جاری رہا تو اس کے معاشی، سیاسی اور انسانی اثرات تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ایران، اسرائیل اور امریکہ کے مابین یہ تنازعہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور اس کے نتائج خطے اور دنیا کے لیے غیر یقینی ہیں۔ میزائل حملوں اور فضائی کارروائیوں نے سفارتی حل کی راہ میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ عالمی برادری کی کوششوں کے باوجود، جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں فریقین کے اقدامات اس تنازعہ کی سمت کا تعین کریں گے، لیکن فی الحال مشرق وسطیٰ ایک بار پھر عدم استحکام کا شکار ہے۔